افغانستان سے بات چیت، ترک وفد کے دورے کی تاریخ طے نہیں: پاکستان

ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق افغانستان سے بات چیت کے لیے روس اور ایران سمیت کئی ممالک نے ثالثی کی پیشکش کی جس کو پاکستان سراہتا ہے۔

پاکستان کے دفتر خارجہ نے جمعے کو بتایا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی کم کرنے کے لیے ایک اعلیٰ سطحی ترک وفد کے دورے کی کوئی تاریخ طے نہیں ہوئی۔  

ترکی کے صدر طیب رجب اردوغان نے نو نومبر کو کہا تھا کہ ترک وزیر خارجہ، وزیر دفاع اور خفیہ ایجنسی کے سربراہ اس ہفتے پاکستان جائیں گے تاکہ افغانستان کے ساتھ جنگ بندی سے متعلق تعطل کے شکار مذاکرات پر بات چیت کی جا سکے۔

سرکاری ہینڈ آؤٹ کے مطابق انہوں نے کہا کہ اس دورے کا مقصد خطے میں مستقل جنگ بندی اور ممالک کے درمیان امن کے قیام کو جلد از جلد ممکن بنانا ہے۔

تاہم آج ہفتہ وار بریفنگ میں دفتر خارجہ کے ترجمان طاہر اندرابی نے کہا اس دورے کی تاریخ طے نہیں ہوئی۔

انڈپینڈنٹ اردو کے سوال پر کہ ’کیا آپ تصدیق کر سکتے ہیں کہ روس، ایران، اور ترکی پاکستان ۔ افغانستان مذاکرات میں پس پردہ کردار ادا کر رہے ہیں؟‘

ترجمان دفتر خارجہ نے جواب دیا کہ روس اور ایران سمیت کئی ممالک نے ثالثی کی پیشکش کی اور پاکستان ان کی حمایت کو سراہتا ہے، تاہم اس وقت کسی پیشکش پر تفصیل سے بات کرنا قبل از وقت ہے۔ 

طاہر اندرابی کے مطابق اسلام آباد ترکی، ایران اور روس کی کوششوں کا خیرمقدم کرتا ہے، لیکن بات چیت میں ’تاخیر کو پاکستان سے منسوب نہ کیا جائے۔‘

12 اکتوبر کو دونوں ملکوں کے درمیان شدید سرحدی جھڑپوں میں اموات کے بعد پاکستان نے طورخم سرحد تجارت کے لیے بند کر رکھی ہے اور افغان حکام کے مطابق پاکستان میں ان کے تقریبا آٹھ ہزار کنٹینر پھنسے ہوئے ہیں۔

البتہ پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف کا ماننا ہے کہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی بندش سے پاکستان کو ہی فائدہ ہے کیونکہ یہ سامان اکثر پاکستان واپس پہنچ جاتا ہے۔

افغانستان کے نائب افغان وزیر اعظم ملا عبدالغنی برادر نے حال ہی میں افغان صعنت کاروں اور تاجروں پر زور دیا کہ وہ پاکستان کی بجائے متبادل تجارتی منڈیاں تلاش کریں۔

پاکستان جو چیزیں فروخت کرتا ہے ان میں خوراک جیسے کہ چاول اور گندم سرفہرست تھیں، جس کے بعد ادویات اور سیمنٹ جیسا سامان بھیجا جاتا رہا ہے۔ 

دوسری جانب افغانستان پاکستان میں کوئلہ، کاٹن، فروٹ اور سبزیاں بھیجتا ہے۔ افغانستان کا پاکستان پر ٹرانزٹ ٹریڈ کی وجہ سے بھی بہت زیادہ انحصار ہے۔

دفتر خارجہ کے ترجمان نے افغانستان کے ساتھ سرحدی اور تجارتی تعلقات کے حوالے سے پاکستان کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہ آنے کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ’پاکستان افغانستان کے ساتھ تجارت کے بغیر گزارا کر سکتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’سرحد کے دوبارہ کھلنے کی ذمہ داری افغان طالبان حکومت پر عائد ہوتی ہے، اس کا انحصار اس کی حکومت پر ہے۔‘

انہوں نے کہا پاکستان افغان اور پاکستانی تاجروں کے نقصانات سے متعلق آگاہ ہے، لیکن یہ مسئلہ ان تاجروں کے لیے بھی بقا کے خطرے میں تبدیل ہو چکا ہے۔ 

ترجمان نے ملک میں حالیہ دنوں میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا 10 اور 15 نومبر کو افغانستان کی جانب سے پاکستان کے تجارتی راستوں پر حملے ہوئے۔ 

طاہر اندرابی نے کہا ’یہ ایک مشکل فیصلہ ہے، مگر افغان فورسز اور افغان حکومت کے رویے کے باعث تجارت خطرے میں ہے، اسی لیے پاکستان نے جو موقف اختیار کیا، وہ برقرار رہے گا۔‘

’یا تو ہم خود کو مروائیں یا پھر ایک انتہائی خطرناک تجارت جاری رکھیں۔ آپ ہی بتائیں، کیا یہ کوئی قابل قبول چوائس ہے؟‘

سکیورٹی اور تجارت کو الگ رکھنے سے متعلق ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ موجودہ صورت حال کا جائزہ صرف نومبر کے واقعات تک محدود نہ رکھا جائے، بلکہ 2021 سے جاری چار سالہ تسلسل میں دیکھا جائے۔

انہوں نے واضح کیا کہ تاپی، ٹیپ، کاسا جیسے منصوبے اور پاکستانی وزیر خارجہ اسحاق ڈار کے افغانستان دوروں کے دوران کی جانے والی کوششیں اسی شرط کے تحت ہیں کہ افغان طالبان دہشت گرد تنظیموں کی حمایت بند کریں اور پاکستان میں حملوں کو روکیں۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان