افغانستان کی ایئر لائن آریانا ایئر نے ایک اعلامیے میں بتایا ہے کہ افغان حکومت کی ہدایت پر 16 نومبر سے کمپنی افغانستان کی مصنوعات انڈیا پہنچانے کے لیے ایئر کارگو کا آغاز کر رہی ہے۔
پاکستان اور افغانستان کی تجارتی گزرگاہیں بند ہونے کی وجہ سے دونوں ممالک کی درآمدات اور برآمدات متاثر ہوئی ہیں اور اسی وجہ سے افغانستان متبادل ذرائع کی تلاش میں ہے۔
افغان طالبان کی جانب سے افغان صنعت کاروں کو گذشتہ ہفتے مطلع کیا گیا تھا کہ تین مہینوں کے اندر اندر پاکستان کے ساتھ تجارتی معاملات ختم کریں اور اس کے بعد افغان حکومت تاجروں کی شکایت قبول نہیں کرے گی۔
آریانا ایئر لائن کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا ہے کہ اس سے پہلے آریانا ایئر لائن افغان مصنوعات آریا کارگو سروس کے ذریعے دنیا کے کونے کونے تک پہنچا رہی تھی۔
تاہم بیان کے مطابق اب افغان مصنوعات کم قیمت پر انڈیا بھی پہنچائی جائیں گی اور تاجر اس سہولت سے فائدہ حاصل کر سکتے ہیں۔
آریانا ایئر کے سربراہ ملا بخت الرحمان شرافت کے مطابق یہ فیصلہ افغان وزارتِ تجارت نے لیا ہے تاکہ افغان تاجروں کو دنیا میں افغان مصنوعات پہنچانے کے لیے راستہ فراہم کیا جا سکے۔
آریانا ایئر نے قیمتوں کے بارے میں لکھا ہے کہ ’ایک کلو برآمدات کی فی کلو قیمت 224 پاکستانی روپے جبکہ فی کلو درآمدات کی قیمت ایک ڈالر (تقریباً 280 پاکستانی روپے) ہو گی۔‘
بیان کے مطابق کارگو کے ذریعے مختلف مصنوعات جیسے خشک میوہ جات، زعفران، کارپٹ اور دیگر مصنوعات بذریعہ ایئر کارگو انڈیا پہنچائی جا سکتی ہیں۔
ایئر کارگو کتنا مہنگا پڑتا ہے؟
ورلڈ بینک کی 2025 کے شش ماہی رپورٹ کے مطابق افغانستان کی 41 فیصد مصنوعات پاکستان کو سپلائی کی گئی ہیں جو کسی بھی ملک کو افغانستان کی برآمدات کا سب سے زیادہ حصہ ہے۔
تاہم تجارتی گزرگاہوں کی بندش سے پاکستان کو برآمد کی جانے والی اشیا افغانستان میں سستی داموں فروخت ہو رہی ہیں، جن میں تازہ پھل، خشک میوہ جات، سبزیاں اور دیگر مصنوعات شامل ہیں۔
اعدادوشمار کے مطابق افغانستان سے مجموعی برآمدات کا 41 فیصد سے زائد سامان پاکستان گیا جس میں سب سے زیادہ 73 فیصد سے زائد اشیا خوردونوش تھیں جو پاکستان اور انڈیا کو سپلائی کی گئی ہیں۔
اسی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ رواں سال جولائی میں افغانستان اور پاکستان کے مابین رواں سال جون میں دو طرفہ تجارتی معاہدے کے بعد برآمدات میں اضافہ دیکھنے کو ملا تھا۔
شاہد حسین سرحد چیمبر آف کامرس کے سابق سینئر نائب صدر اور اب سرحد چیمبر آف کامرس کی پاکستان و افغانستان بائی لیٹرل ٹریڈ پروموشن کمیٹی کے چیئرمین ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ عملی طور پر افغانستان کی مصنوعات بذریعہ جہاز انڈیا پہنچانا دوگنا نہیں بلکہ زمینی راستے سے چار گنا مہنگا پڑتا ہے۔
شاہد حسین نے بتایا کہ اگر فی کلو ایک ڈالر کا حساب لگایا جائے تو 20 ہزار کلو کا کنٹینر 20 ہزار ڈالر پڑے گا جو تقریباً 55 لاکھ روپے بنتے ہیں، لیکن زمینی راستے پر اسی 20 ہزار کلو کے کنٹینر کو افغانستان سے براستہ پاکستان انڈیا پہنچانے پر آٹھ سے 10 لاکھ تک خرچہ آتا ہے۔
اس میں شاہد حسین کے مطابق کابل سے پاکستان تک کا تقریباً پانچ لاکھ کرایہ شامل کیا جائے اور باقی کسٹم اور دیگر اخراجات کا تخمینہ لگایا جائے تو زیادہ سے زیادہ فی کنٹینر 10 لاکھ روپے بنتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’اب اس میں مقدار کی بات بھی اہم ہے کہ زمینی راستے سے اگر اوسط روزانہ 200 کنٹینرز کی کابل سے پاکستان سپلائی کا حساب بھی لگایا جائے تو مصنوعات زیادہ زمینی راستے سے سپلائی کی جاتی ہیں جبکہ ایئر کارگو میں اتنی مقدار میں مصنوعات سپلائی نہیں کی جاتیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کابل سے براستہ پاکستان زمینی راستے سے مصنوعات کی سپلائی کے حوالے سے شاہد حسین نے بتایا کہ پلواما حملوں سے پہلے افغانستان کی مصنوعات براستہ پاکستان انڈیا سپلائی کی جاتی تھیں۔
انہوں نے بتایا کہ کابل سے براستہ پاکستان واہگہ بارڈر تک یہ ٹرانزٹ ٹریڈ تھا اور اس پر کسٹم ڈیوٹی عائد نہیں تھی اور فی کنٹینر واہگہ تک کنٹینر کا کرایہ تقریباً آٹھ لاکھ روپے بنتا ہے جو ایئر کارگو کے فی کنٹینر کے کرائے سے 47 لاکھ روپے کم ہے۔
پاکستان اور افغانستان کی دو طرفہ تجارت کے حوالے سے شاہد حسین نے بتایا کہ دونوں ممالک کی تجارت دہائیوں سے جاری ہے اور دونوں ممالک میں صنعتکار اور منڈیوں میں تاجروں کے ایک دوسرے سے روابط ہیں۔
شاہد حسین نے بتایا کہ ’افغانستان وسطی ایشیا ممالک کو برآمدات اور ایئر کارگو کے ذریعے سپلائی کی کوششیں تو کر رہا ہے لیکن پاکستان جیسی آسان مارکیٹ ان کے لیے نہیں ہے کیونکہ وسطی ایشیا اور روس خود زرعی زمینیں رکھتے ہیں اور مصنوعات پیدا کرتے ہیں، تو اتنی بڑی مقدار میں وہ افغانستان سے مصنوعات نہیں خرید سکتے۔‘
دوسری بات شاہد حسین کے مطابق ایران کے ساتھ ان کی تجارت زیادہ ہے لیکن ایران اپنی مصنوعات افغانستان برآمد کرتا ہے اور افغانستان کی برآمدات ایران کو کم ہوتی ہیں۔
ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق افغانستان سب سے زیادہ (30 فیصد) اپنی مصنوعات ایران سے درآمد کرتا ہے جبکہ دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ درآمدات متحدہ عرب امارات سے ہوتی ہیں۔
افغانستان پہلے سے کچھ ممالک کو بذریعہ ہوائی جہاز کارگو سپلائی کرتا ہے، تاہم وہ مجموعی برآمدات کا بہت کم حصہ ہے۔
افغانستان وزارتِ کامرس کے مطابق گذشتہ سال بذریعہ کارگو افغانستان کی برآمدات کی مجموعی حجم 128 ملین ڈالر تھی۔