پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے گذشتہ منگل کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’افغان جہاد لڑنے کے لیے پاکستان اور افغانستان کا نصاب تبدیل کیا گیا، مدرسوں کا جال بچھایا گیا، اسلامائزیشن کا بخار دین کے لیے نہیں بلکہ امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے تھا۔‘
پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس وقت کی پاکستانی قیادت نے افغان جنگ اپنی تزویراتی گہرائی قرار دے کر کیوں لڑی؟ حالانکہ آج انہی اداروں سے وابستہ قیادت کہتی ہے کہ یہ سراسر امریکی مفادات کی جنگ تھی۔
افغانستان کبھی پاکستان کی تزویراتی گہرائی نہیں رہا۔ تزویراتی گہرائی سے مراد ہوتی ہے کہ پاکستان جب حالتِ جنگ میں ہو تو وہاں اپنے دفاعی اثاثوں کو محفوظ رکھ سکے۔ اس تناظر میں پاکستان نے آج تک جتنی جنگیں انڈیا کے ساتھ لڑی ہیں ان میں سے دو جنگوں میں اگر کوئی ملک پاکستان کی تزویراتی گہرائی پر پورا اترتا ہے تو وہ شاہ کے دور کا ایران ہے۔
افغانستان گذشتہ 45 سال سے میدان جنگ بنا ہوا ہے اور اب تو افغان اسی تاریخی نرگسیت کا شکار ہیں جو کبھی انہیں دینی نصاب قرار دے کر پڑھائی گئی تھی۔ جن میں سے ایک مغالطہ یہ بھی تھا کہ افغانستان سلطنتوں کا قبرستان ہے۔ افغانستان کا جغرافیہ ایسا ہے کہ یہاں آج تک کوئی حملہ آور کامیاب نہیں ہو سکا۔ ایسے بہت سے خیالِ پختہ جو خام تھے اب افغانیوں کے دلوں میں سرایت کر چکے ہیں۔
یہ نصاب کیا تھا اور اسے کس نے کن مقاصد کے لیے مرتب کیا تھا۔ اس حوالے سے آج تمام شواہد منظرِعام پر آ چکے ہیں۔
کرسمس کی وہ شام جب روسی فوجیں افغانستان میں اتریں
25 دسمبر1979 کو سرخ فوج کے تین زمینی اور ایک فضائی ڈویژن افغانستان میں داخل ہو گئے جن کی قیادت جنرل ایگور روڈینوف کر رہے تھے۔ امریکی صدر جمی کارٹر نے اسے دوسری جنگِ عظیم کے بعد عالمی امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا کیونکہ روسی افواج آبنائے ہرمز کے قریب پہنچ چکی تھیں جہاں سے تیل کی عالمی تجارت کے 20 حصے کی ترسیل ہوتی تھی۔
اسلام آباد سے صرف 378 کلومیٹر دور روسی افواج کی موجودگی سے پاکستان کے کان بھی کھڑے ہو گئے کیونکہ اس سے پہلے بلوچستان کی یورش چل رہی تھی ہزاروں بلوچ خاندان اپنے اہل وعیال کے ساتھ افغانستان میں پناہ گزین تھے۔
کابل مسلسل پختون قوم پرستوں کی سیاسی ومالی معاونت کر رہا تھا جس سے پاکستان خطرہ محسوس کرتا تھا۔ اس لیے جب کابل میں روسی افوج داخل ہوئیں تواس نے جنگ میں کودنے کا فیصلہ کر لیا۔ 18 جنوری1980 کے نیویارک ٹائمز نے اپنی اشاعت میں لکھا کہ جب امریکہ نے صدرجنرل محمد ضیا ء الحق کو افغان مجاہدین کے لیے 40 کروڑ ڈالر دینے کی پیشکش کی تو انہوں نے اسے یہ کہہ کر ٹھکرا دیا
کہ ’یہ مونگ پھلی کے دانوں کی طرح ہے پاکستان اپنی سلامتی کا سودا 40 کروڑ ڈالر میں نہیں کرے گا۔‘اس کے بعد امریکہ اور پاکستان کے انٹیلی جنس اداروں نے مل کر روس کے خلاف ایک جال تیار کیا، جس کا سب سے اہم حصہ ایک ایسا بیانیہ تشکیل دینا تھا جہاں اس جنگ کو افغانوں کی آزادی اور حریت کی جنگ قرار دیا جا سکے۔
نبراسکا یونورسٹی جس نے جہادی نصاب بنایا
اسلام آباد میں قائم غیر سرکاری تھنک ٹینک سینٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی سٹدیز کی ایک رپورٹ کے مطابق سی آئی اے نے 2,430 کلومیٹر طویل پاک افغان سرحد سے متصل علاقوں میں مدارس کی ایک زنجیر قائم کرنے کا فیصلہ کیا جس کے لیے سی آئی اے نے 5سے 8ارب ڈالر کی رقم فراہم کی تاکہ روسی افواج کے خلاف مزاحمت کو کفر اور اسلام کی جنگ بنا کر پیش کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے نبراسکا یونیورسٹی کے افغان سٹڈی سینٹر کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ امریکہ کی عالمی ترقیاتی ایجنسی یو ایس ایڈ نے ابتدائی طور پر 4.3 کروڑ ڈالر فراہم کیے جو بعد میں چھ کروڑ ڈالر تک پہنچ گئے۔
یونیورسٹی آف نبراسکا نے چار درجن کے قریب ماہرین اکٹھے کیے جو اسلام اور افغانستان کے ماہر سمجھے جاتے تھے جنہوں نے افغانستان کی دو بڑی زبانوں پشتو اور دری میں ایک ایسا نصاب ترتیب دیا جو مدارس کے ان طلبہ کی علمی و روحانی آبیاری کرتا تھا جنہوں نے آگے چل کر جہادی بننا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس نصاب کی ڈیڑھ کروڑ کتابیں چھاپی گئیں۔مدارس کے اساتذہ کے لیے 30 ہزار تربیتی کتب اس کے علاوہ تھیں جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ اساتذہ کو کیسے اپنے طالب علموں کی ذہنی تربیت کرنی ہے۔
واشنگٹن پوسٹ میں 22 مارچ 2002 کو شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق ان کتابوں میں جہاد کی تعلیم دی گئی تھی جن میں بندوقوں، گولیوں، فوجیوں اور بارودی سرنگوں کی تصاویر شامل تھیں۔
بعد میں جب طالبان برسرِ اقتدار آئے تو انہوں نے اسی نصاب کو برقرار رکھا لیکن اس میں سے تصاویر ہٹا دیں۔
اس نصاب میں نئے بچوں کے لیے جو قاعدہ مرتب کیا گیا اس میں لکھا ہوا تھا کہ الف سے اسلام، جس کے پانچ بنیادی ستون ہیں جن میں جہاد سب سے اہم ہے، ت سے تفنگ یعنی بندوق، ج سے جہاد، جو فرضِ عین ہے۔
د سے دین، اسلام ہمارا دین ہے اور روسی اسلام کے دشمن ہیں۔ و سے وطن اور افغانستان ہمارا وطن ہے مجاہدین اس کے پاسبان ہیں جوروسی فوجوں کے خلاف جہاد کر رہے ہیں۔
حساب میں پڑھایا جاتا تھا کہ ایک مجاہد نے اگر 50 روسیوں پر حملہ کیا اور اس میں سے 20 مارے گئے تو باقی کتنے بچے؟ کلاشنکوف کی گولی کی رفتار 800 میٹر فی سیکنڈ ہے اگر ایک روسی ایک مجاہد سے 3,200 میٹر دوری پر ہو گا تو کلاشنکوف کی گولی کتنے سیکنڈ میں روسی فوجی کے آر پار ہو جائے گی۔
امریکہ نے افغانستان آنے کے بعد پھر نصاب بدل ڈالا
11 ستمبر2001 کے حملوں کے بعد جب امریکی فوجیں افغانستان میں داخل ہوئیں تو انہیں ایک بار پھر یہ چیلنج درپیش تھا کہ وہ اس نصاب میں سے تشدد اور جہاد کو کیسے نکالیں جو پہلے انہوں نے ہی داخل کیا تھا۔
اب کی بار اس مقصد کے لیے امریکہ نے ساڑھے 29 کروڑ ڈالر مختص کر کے یہ ہدف ایک بار پھر نیبراسکا ییونیورسٹی کو دے دیا۔ اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسف نے 2001ء میں 70 افغان ماہرینِ تعلیم اور 24 نجی گروہوں کے ساتھ مل کر افغانستان کے سکولوں کے لیے نئے نصاب کی تیاری شروع کی۔
جب ماہرین نے طالبان دور کی ایک نصابی کتب کا جائزہ لیا تو 100صفحات کی اس کتاب میں 43 صفحات تشدد آمیز تصاویر اور پیغامات پر مبنی تھے۔ یونیسف نے ایسی پانچ لاکھ کتابیں تلف کیں۔
اس وقت کی امریکی خاتون اوّل لارا بش نے افغان صدر حامد کرزئی کو بتایا کہ امریکہ افغانستان میں نئی نصابی کتب کے لیے 65 لاکھ ڈالر فراہم کرے گا۔
1991 میں امریکہ کی وفاقی اپیلٹ کورٹ نے واضح طور پر فیصلہ دیا تھا کہ امریکی ٹیکس دہندگان کی رقم کو مذہبی تعلیم کے لیے چاہے وہ بیرون ملک ہی کیوں نہ ہو استعمال نہیں کیا جا سکتا لیکن یو ایس ایڈ نے نیبراسکا یونیرسٹی کے افغان سٹڈی سینٹر کو پھر 65 لاکھ ڈالر دے دیے تاکہ وہ افغانستان کی نصابی کتب کی ’صفائی‘ کر سکے۔
کتابوں سے تو نفرت نکال دی گئی مگر اس نصاب کو پڑھ کر جو نسل جوان ہوئی تھی اس نے نہ صرف افغانستان کو پھر یرغمال بنا لیا بلکہ آج پاکستان کی سلامتی کے لیے بھی خطرہ بن چکی ہے۔
نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔