پاک افغان تعلقات کا مستقبل ٹی ٹی پی سے نمٹنے پر منحصر

ٹی ٹی پی اس پورے معاملے کا مرکزی مسئلہ ہے، اور جب تک اسے حل نہیں کیا جاتا، افغانستان اور پاکستان کے تعلقات معمول پر نہیں آ سکتے۔

پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف اپنے افغان ہم منصب ملا محمد یعقوب سے 19 اکتوبر 2025 کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں مذاکرات کے اختتام پر مصافحہ کر رہے ہیں (قطری وزارت خارجہ ایکس اکاؤنٹ)

30 اکتوبر کو ایک امید کی کرن اس وقت نمودار ہوئی جب افغانستان اور پاکستان نے استنبول میں ایک تین نکاتی اعلامیے پر اتفاق کیا، جس کے تحت دونوں ممالک چھ نومبر کو دوبارہ ملاقات کریں گے تاکہ کئی ہفتوں کی غیر معمولی کشیدگی کے بعد طے پائے گئے معاہدے کے نفاذ کے طریقہ کار پر غور کیا جا سکے۔

فریقین نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ امن کے قیام کو یقینی بنانے اور خلاف ورزی کرنے والوں کو سزا دینے کے لیے ایک نگرانی اور جائزہ لینے کا نظام قائم کیا جائے گا۔ تاہم یہ مذاکرات بھی بےنتیجہ ختم ہو گئے، جس کے بعد حالات ایک بار پھر بےیقینی کا شکار ہو گئے ہیں۔

اس سے پہلے پاکستان نے کابل اور افغانستان کے دیگر حصوں میں فضائی حملے کیے جن میں تحریکِ طالبانِ پاکستان اور حافظ گل بہادر گروپ کے رہنماؤں اور ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ وہ تنظیمیں ہیں جو پاکستان میں سرحد پار دہشت گردی میں ملوث رہی ہیں۔

جب طالبان کی جانب سے ٹی ٹی پی کے خلاف عدم کارروائی اور افغان سرزمین پر ان کی موجودگی کو تسلیم نہ کرنے پر پاکستان کی صبر کا پیالہ لبریز ہو گیا تو پاکستان نے کابل میں ضرب لگانے کا بےمثال اقدام اٹھایا۔

طالبان حکومت کے خلاف پاکستانی جارحانہ موقف اور یہ دھمکیاں کہ اگر ٹی ٹی پی کا مسئلہ اطمینان بخش طور پر حل نہ ہوا تو کھلی جنگ کا اعلان بھی کیا جائے گا، پالیسی ساز حلقوں میں ایک بنیادی تبدیلی کی عکاسی کرتی ہیں۔

پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے طالبان حکومت کو یہ واضح اشارہ بھیج دیا ہے کہ اگر وہ افغانستان میں ٹی ٹی پی کی حفاظت اور حمایت کرے گی تو اسے قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ پاکستان اب مزید حملے برداشت نہیں کرے گا، بلکہ جلد اور مناسب انداز میں جواب دے گا۔

ان تمام حقائق کو مدِنظر رکھتے ہوئے، یہ امکان کم ہی ہے کہ افغانستان اور پاکستان اپنے تعلقات کو کابل پر فضائی حملے سے پہلے والی سطح پر واپس لا سکیں، خواہ دونوں ممالک 30 اکتوبر کے سمجھوتے پر عمل درآمد کے طریقہ کار پر اتفاق بھی کر لیں۔

سرحدی کشیدگی کے دوران، افغانستان پاکستان سرحد کے تمام گزرگاہیں بند رہتی ہیں، جس سے تجارت بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ نتیجہ خواہ مثبت ہو یا منفی، اگر طالبان نے ٹی ٹی پی کے خلاف عملی اقدامات نہ کیے تو کشیدگی برقرار رہنے کا امکان ہے۔

پاکستان طالبان حکومت کے لیے افغانستان میں ٹی ٹی پی کی میزبانی اور حمایت کی قیمت بڑھاتا رہے گا۔

حالیہ کشیدگی کے دوران افغانستان اور پاکستان کے درمیان جو صورت حال سامنے آئی ہے، وہ کوئی نئی بات نہیں۔ ماضی میں بھی ٹی ٹی پی کے حوالے سے کشیدگی اور مذاکرات کابل، اسلام آباد اور بیجنگ میں ہو چکے ہیں۔

تاہم، ان سب کے باوجود طالبان کے ٹی ٹی پی سے متعلق سٹریٹجک مؤقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اکتوبر میں دیکھی گئی کشیدگی اور دوحہ و استنبول میں ہونے والی بات چیت کے درمیان واحد فرق یہ ہے کہ اگر پہلے حالات سلگ رہے تھے تو اب وہ بھڑک اٹھے ہیں۔

اس لیے ترک اور قطری سفارت کاری حالات کا درجہ حرارت تو کم کر سکتی ہے، لیکن وقت کو کابل پر فضائی حملے سے پہلے والی صورت حال تک واپس نہیں لے جا سکتی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جب استنبول میں مذاکرات جاری تھے، پاکستان نے باجوڑ ضلع میں ٹی ٹی پی کے نائب سربراہ مفتی مزاحم کو نشانہ بنا ڈالا۔ مفتی مزاحم کی موت، 2022 میں جماعت الاحرار کے سربراہ عمر خالد خراسانی کی موت کے بعد پاکستانی سکیورٹی فورسز کی سب سے بڑی انسدادِ دہشت گردی کامیابی قرار دی جا رہی ہے۔

یہ کارروائی طالبان حکومت کو یہ واضح پیغام دینے کے لیے کی گئی ہے کہ اگر اس نے ٹی ٹی پی کے خلاف قدم نہ اٹھایا تو پاکستان خود کارروائی کرے گا، چاہے وہ افغانستان پاکستان سرحدی علاقوں میں ہوں یا افغانستان کے اندر گہرائی میں۔

اسی کے ساتھ پاکستان نے طالبان حکومت کو دوٹوک انداز میں واضح کر دیا ہے کہ وہ ٹی ٹی پی سے کسی بھی قسم کے مذاکرات نہیں کرے گا۔ پاکستان طالبان سے توقع رکھتا ہے کہ وہ 2020 کے دوحہ معاہدے کے تحت اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔

مزید یہ کہ پاکستان کے نزدیک افغانستان پاکستان سرحد ایک طے شدہ معاملہ ہے اور طالبان قیادت کی کوئی بھی بیانیہ بازی پاکستانی ریاست پر اثر انداز نہیں ہو سکتی۔ یہ بات قابلِ افسوس ہے کہ افغان شہری ایران یا وسطی ایشیائی ممالک میں بغیر ویزا داخلے کا مطالبہ نہیں کرتے، لیکن پاکستان کے معاملے میں ایسا رویہ اپنایا جاتا ہے۔

پاکستان ایک خودمختار ملک ہے، اور کوئی بھی غیر ملکی ویزا حاصل کیے بغیر اس کی سرزمین میں داخل نہیں ہو سکتا۔

پاکستان اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے کہ طالبان کو تحریکِ طالبان پاکستان کے نیٹ ورک کو ختم کرنے میں کئی طرح کی عملی اور نظریاتی مشکلات کا سامنا ہے۔ طالبان کو یہ اندیشہ بھی لاحق ہے کہ اگر ٹی ٹی پی کے خلاف سخت عسکری کارروائی کی گئی تو اس کے ناراض عناصر داعش خراسان میں شامل ہو سکتے ہیں۔

پاکستان طالبان کے نظریاتی حساسیتوں اور اس خطرے کو بھی سمجھتا ہے کہ ٹی ٹی پی کے خلاف کسی بڑے کریک ڈاؤن سے تحریک کے اندرونی دھڑوں میں اختلافات اور کشیدگی پیدا ہو سکتی ہے۔

تاہم، ٹی ٹی پی کی موجودگی سے مکمل انکار نے پاکستان کے صبر کو آزما دیا ہے۔ اگر طالبان حکومت اخلاص کے ساتھ پاکستان کے جائز سکیورٹی خدشات کو سمجھے اور ان کی قدر کرے تو اسلام آباد کابل کے ساتھ تعاون کرنے اور ہر طرح کی مدد فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔

مخلصانہ اور دیانت دارانہ مکالمے کی صورت میں سفارتی، سیاسی اور عسکری اقدامات کا ایک مشترکہ لائحہ عمل ترتیب دیا جا سکتا ہے۔

بدقسمتی سے، اگر افغانستان اور پاکستان کے درمیان کشیدگی برقرار رہی تو امن کے یہ دشمن اور دہشت گرد نیٹ ورکس جیسے ٹی ٹی پی، داعش خراسان اور القاعدہ  اس صورتِ حال سے فائدہ اٹھائیں گے۔ ان کشیدگیوں سے پیدا ہونے والا انتشار کئی نئی دراڑیں کھول دے گا، جن کے ذریعے یہ گروہ بھرتی، انتہاپسندی اور تشدد کو فروغ دینے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔

چونکہ افغانستان جنوبی اور وسطی ایشیا کے سنگم پر واقع ہے، اس لیے وہاں کے حالات کے اثرات اس کی سرحدوں سے کہیں آگے تک پہنچتے ہیں۔

اسلام آباد اور کابل دونوں کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ موجودہ صورتِ حال کا غیر جانبداری سے تجزیہ کریں اور ایک باہمی قابلِ قبول فریم ورک کے تحت ٹی ٹی پی کے مسئلے سے خلوصِ نیت کے ساتھ نمٹیں۔

ٹی ٹی پی اس پورے معاملے کا مرکزی مسئلہ ہے، اور جب تک اسے حل نہیں کیا جاتا، افغانستان اور پاکستان کے تعلقات معمول پر نہیں آ سکتے۔

دوسرے لفظوں میں، افغانستان اور پاکستان کے تعلقات کی بحالی کا راستہ کابل کی اس آمادگی سے گزرتا ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کے خلاف تعاون کرے۔

مصنف ایس راجاراتنام سکول آف انٹرنیشنل سٹڈیز، سنگاپور میں سینئر ایسوسی ایٹ فیلو ہیں۔ X: @basitresearcher

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر