پاکستان اور افغانستان کے درمیان ہونے والے مذاکرات ناکام ہو گئے ہیں جس سے نہ صرف علاقائی امن کو خطرہ لاحق ہے بلکہ اس ناکامی سے خطے کے ممالک میں اشتراک کا خواب بھی ادھورا رہ سکتا ہے۔
استنبول میں ترکی اور قطر کی ثالثی سے ہونے والے مذاکرات جمعے کو دو روز تک جارتی رہنے کے بعد بغیر کسی نتیجے کے ختم ہو گئے جب فریقین نے ایک دوسرے پر غیرسنجیدگی کے الزام لگائے۔
دونوں ملکوں نے تاہم یہ عندیہ بھی دیا کہ وہ جنگ بندی کی پاسداری کریں گے بشرطیکہ کسی فریق کی جانب سے اس کی خلاف ورزی نہ ہو۔
ماہرین کے مطابق اس ناکامی کا سب سے زیادہ ممکنہ نقصان چین کو ہو سکتا ہے جس نے نہ صرف پاکستان میں بلکہ افغانستان میں بھی بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔
افغان طالبان کا کہنا ہے کہ مذاکرات کے دوران پاکستان نے سلامتی کی مکمل ذمہ داری کابل پر ڈالنے کی کوشش کی۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے پاکستان پر ’غیر ذمہ دارانہ رویے‘ کا الزام لگایا جب کہ پاکستان کے وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے کہا کہ اسلام آباد افغان طالبان کے کسی ایسے اقدام کی حمایت نہیں کرے گا جو افغان عوام اور ہمسایہ ممالک کے مفاد میں نہ ہو۔
پاکستان کا مؤقف ہے کہ افغان طالبان 2021 کے دوحہ امن معاہدے میں کیے گئے وعدوں کی پاسداری نہیں کر رہے اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو پناہ دیے ہوئے ہیں، جو افغان سرزمین استعمال کرتے ہوئے پاکستان پر حملے کرتے ہیں۔
کابل ان الزامات کی سختی سے تردید کرتا ہے۔
حالیہ جھڑپوں میں تقریباً 50 افغان شہری کی اموات اور متعدد زخمی ہوئے جب کہ پاکستان نے اپنے 23 فوجیوں کے جان کھونے اور 29 کے زخمی ہونے کی تصدیق کی۔
ابتدا میں خیال تھا کہ چونکہ قطر اور ترکی دونوں پاکستان اور افغانستان کے قریب ہیں اس لیے مذاکرات کامیاب ہو جائیں گے۔ یہ امید اس لیے بھی تھی کہ چین ان مذاکرات کی پشت پر تھا جو خطے میں امن اور استحکام کا خواہاں ہے تاکہ اس کے معاشی منصوبے تیزی سے آگے بڑھ سکیں۔
ذرائع کے مطابق مذاکرات کی ناکامی کی بنیادی وجہ فریقین کی سخت شرائط بنیں۔ پاکستان نے طالبان سے ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا جو وہ اپنے نظریاتی ساتھیوں کے خلاف کرنے سے گریزاں ہیں۔
کچھ رپورٹس کے مطابق افغان طالبان نے پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی سرزمین افغانستان کے خلاف ڈرون حملوں میں استعمال نہ ہونے دے۔
پاکستانی حلقوں کا خیال ہے کہ افغان طالبان انڈیا کے قریب جا رہے ہیں اور وہ پاکستان سے حالیہ جھڑپوں کا بدلہ لینا چاہتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسری جانب افغانستان میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ پاکستان نے امریکی دباؤ پر کارروائیاں کیں تاکہ امریکہ کو بگرام ایئربیس کے حصول میں مدد مل سکے۔
ناقدین کے مطابق افغان طالبان کی انڈیا سے بڑھتی قربت بھی اسلام آباد کے لیے تشویش کا باعث ہے۔ کابل نہ صرف ایران کی بندرگاہوں کے ذریعے انڈیا سے تجارت کا خواہاں ہے بلکہ ترکمانستان افغانستان پاکستان انڈیا (تاپی) گیس پائپ لائن منصوبے پر بھی تیزی سے کام کر رہا ہے جس میں پاکستان کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔
مذاکرات کی ناکامی کے بعد امکان ہے کہ افغان طالبان ٹی ٹی پی کی حمایت میں مزید اضافہ کریں جس سے پاکستان میں حملوں کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔
اس صورت حال کا سب سے زیادہ اثر چین پر پڑ سکتا ہے جو علاقائی روابط پر یقین رکھتا ہے اور یہ افغانستان میں امن کے بغیر ممکن نہیں۔
چین نے روس میں 400 ارب ڈالر، وسطی ایشیا میں 30 ارب ڈالر اور مختلف منصوبوں پر 120 ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے جب کہ ایران میں بھی اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا ہے۔
پاکستان اور افغانستان توانائی سے مالا مال وسطی ایشیائی خطے کے لیے گیٹ وے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر ان دونوں ممالک میں کشیدگی برقرار رہی تو چین کے معاشی مفادات کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور اس کی معیشت متاثر ہو سکتی ہے۔
بیجنگ کو یہ بھی خدشہ ہے کہ پاک افغان کشیدگی کو بہانہ بنا کر امریکہ ایک بار پھر خطے میں اپنی موجودگی کا جواز تلاش کرے گا، جس سے چین کی سکیورٹی کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں خاص طور پر جب جنوبی بحیرہ چین میں وہ پہلے ہی امریکی دباؤ میں ہے۔
نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔