ترک وفد افغانستان پر بات چیت کے لیے پاکستان جائے گا: اردوغان

ترک صدر اردوغان نے بتایا کہ ترکی کے وزرائے خارجہ، دفاع اور انٹیلی جنس کے سربراہ پاکستان جائیں گے تاکہ افغانستان کے ساتھ جاری تعطل کا شکار مذاکرات پر بات چیت کی جا سکے۔

ترک  صدر آٹھ نومبر، 2025 کو باکو میں پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات کر رہے ہیں (ریڈیو پاکستان)

ترک صدر رجب طیب اردوغان نے اتوار کو کہا کہ ترکی کے وزرائے خارجہ، دفاع اور انٹیلی جنس کے سربراہ اگلے ہفتے پاکستان جائیں گے تاکہ جنگ بندی سے متعلق افغانستان کے ساتھ جاری تعطل کا شکار مذاکرات پر بات چیت کی جا سکے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ایک سرکاری ہینڈ آؤٹ میں بتایا گیا کہ اتوار کو باکو سے واپسی پر صدر اردوغان نے کہا ترک وزرا کے دورے کا مقصد ان ممالک (پاکستان اور افغانستان) کے درمیان مستقل جنگ بندی اور امن کے قیام کو جلد از جلد یقینی بنانا ہے۔

ترک صدر کا یہ بیان گذشتہ روز باکو میں ان کی پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات کے بعد سامنے آیا۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان اکتوبر میں خون ریز سرحدی جھڑپوں کے بعد سے تعلقات کشیدہ ہیں۔ 

ترکی اور قطر کی مصالحت کے بعد دونوں ملکوں میں عارضی جنگ بندی تو قائم ہے البتہ مستقل امن کا معاہدہ تاحال طے نہیں پا سکا۔

پاکستان کا اصرار ہے کہ افغانستان تحریری طور پر ضمانت دے کہ وہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور دوسرے عسکریت پسندوں کی اپنی سرزمین سے پاکستان پر حملے نہیں کرنے دے گا۔

تاہم افغانستان تحریری معاہدہ نہیں کر رہا۔ افغان حکومت کے ترجمان نے استنبول میں مذاکرات کے تیسرے دور کو ’ناکام‘ قرار دیتے ہوئے پاکستان پر ’عدم تعاون‘ کا الزام عائد کیا۔

طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ہفتے کو ایکس پر اپنے پیغامات کے سلسلے میں لکھا ’بات چیت کے دوران پاکستانی فریق نے اپنی سکیورٹی کی تمام ذمہ داری افغان حکومت پر ڈالنے کی کوشش کی، جب کہ نہ افغانستان کی سکیورٹی اور نہ اپنی سکیورٹی کی ذمہ داری لینے پر کوئی آمادگی ظاہر کی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستانی وفد کے غیر ذمہ دارانہ اور عدم تعاون پر مبنی رویے کی وجہ سے کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’افغانستان نہ تو کسی کو اجازت دے گا کہ اس کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال ہو اور نہ ہی کسی ملک کو یہ اجازت دے گا کہ وہ افغانستان کی سرزمین کو ایسے اقدامات کے لیے استعمال کرے یا ایسے اقدامات کی حمایت کرے جو افغانستان کی قومی خودمختاری، آزادی یا سکیورٹی کو کمزور کریں۔‘

پاکستان نے اتوار کو ایک بار پھر الزام لگایا کہ افغانستان میں طالبان حکومت اپنی سرزمین سے ہونے والی دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے کوئی عملی اقدام نہیں اٹھا رہی۔

ترجمان دفتر خارجہ نے آج ایک بیان میں بتایا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات کا تیسرا دور ترکی اور قطر کی ثالثی میں استنبول میں چھ سے سات نومبر تک ہوا۔

بیان کے مطابق پاکستان دونوں ممالک کی ثالثی کو سراہتا ہے اور علاقائی امن کے لیے سفارت کاری کے ذریعے مسائل حل کرنے کا خواہاں ہے۔

’گذشتہ چار برسوں میں، طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے، پاکستان پر افغان سرزمین سے دہشت گرد حملوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔‘

بیان میں مزید کہا گیا ’پاکستان نے بھاری جانی نقصان کے باوجود انتہائی ضبط و تحمل کا مظاہرہ کیا اور جوابی کارروائی سے گریز کیا، تاہم طالبان حکومت نے ان حملوں کے خلاف کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا۔‘

دفتر خارجہ نے کہا کہ پاکستان نے افغان حکومت کے ساتھ مثبت تعلقات کے لیے تجارت، انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد، تعلیم اور علاج کی سہولیات کی پیش کش کی لیکن اس کے جواب میں طالبان حکومت نے صرف ’کھوکھلے وعدے‘ کیے۔

’افغان طالبان حکومت اصل مسئلے یعنی افغان سرزمین سے ٹی ٹی پی اور بی ایل اے سمیت دہشت گرد تنظیموں کے پاکستان پر حملوں سے توجہ ہٹانے کے لیے غیر متعلقہ اور فرضی موضوعات چھیڑتی رہی ہے تاکہ اپنی ذمہ داریوں سے بچ سکے۔

’پاکستان نے واضح کیا کہ اکتوبر 2025 میں اپنی حالیہ کارروائیوں کے ذریعے اس نے یہ پیغام دیا کہ وہ اپنی سرزمین اور شہریوں کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدام کرے گا۔‘

بیان میں کہا گیا کہ ’طالبان حکومت ان دہشت گرد عناصر کو پناہ دے رہی ہے جو 2015 میں آپریشن ضرب عضب کے دوران افغانستان فرار ہو گئے تھے۔

’یہ عناصر اب افغانستان میں تربیتی کیمپ چلا رہے ہیں اور پاکستان کے خلاف حملے منظم کر رہے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان نے ایک بار پھر مطالبہ کیا کہ افغان طالبان ان مطلوب افراد کو پاکستان کے حوالے کرے، لیکن طالبان حکومت کا جواب ’قابلیت کے فقدان کی بجائے ارادے کی کمی‘ پر مبنی رہا ہے۔

ترجمان نے کہا کہ ’طالبان حکومت ان دہشت گردوں کو ’پناہ گزین‘ ظاہر کرنے کی کوشش کر رہی ہے جو کہ انسانی مسئلہ نہیں بلکہ ایک چال ہے۔‘

’پاکستان ایسے تمام پاکستانی شہریوں کو واپس لینے کے لیے تیار ہے بشرطیکہ انہیں طورخم یا چمن کے راستے باقاعدہ طور پر حوالہ کیا جائے، نہ کہ مسلح حالت میں سرحد پار دھکیلا جائے۔‘

دفتر خارجہ نے زور دیا کہ پاکستان کابل کی کسی بھی حکومت سے بات چیت کے لیے تیار ہے لیکن ’کسی دہشت گرد گروہ سے مذاکرات نہیں کرے گا۔‘

بیان میں کہا گیا کہ طالبان حکومت کے اندر بعض عناصر ایسے ہیں جو پاکستان سے تصادم نہیں چاہتے لیکن ایک طاقتور لابی غیر ملکی مالی حمایت کے ذریعے کشیدگی بڑھانے کی کوشش کر رہی ہے۔

’طالبان حکومت کے کچھ عناصر داخلی اتحاد اور قانونی حیثیت حاصل کرنے کے لیے پاکستان مخالف بیانیے کو فائدہ مند سمجھتے ہیں، لیکن اس رویے سے وہ پاکستان میں اپنی باقی ماندہ نیک نامی بھی کھو رہے ہیں۔‘

دفترِ خارجہ نے یہ بھی کہا کہ طالبان حکومت پاکستان کے اندر پختون قوم پرستی کو ہوا دینے کی کوشش کر رہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں پختون آبادی نہ صرف سماج کا متحرک حصہ ہے بلکہ سیاست اور انتظامیہ میں قیادت کے عہدوں پر فائز ہے۔

ترجمان دفتر خارجہ نے واضح کیا کہ پاکستان کی پارلیمنٹ اور آئین کے تحت مسلح افواج نے دہشت گردی کے خلاف بے شمار قربانیاں دیں اور وہ اپنی عوام کے تحفظ کے لیے پرعزم ہیں۔

بیان کے آخر میں کہا گیا کہ پاکستان بات چیت کے ذریعے اختلافات کے حل کا حامی ہے، تاہم بنیادی مسئلہ یعنی افغان سرزمین سے ہونے والی دہشت گردی کا حل سب سے پہلے ضروری ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا