اسلحہ بے شک کم ہو لیکن پرعزم افغان طالبان کمزور دکھائی نہیں دینا چاہتے۔
کل کے شراکت دار، یعنی افغان طالبان، آج خطے کے اہم کھلاڑی کے طور پر اپنی پوزیشن ازسرِ نو متعین کر رہے ہیں، جس کی ایک وجہ پاکستان کے اداروں کی جانب سے دکھایا جانے والا ’سخت پیار‘ بھی ہے۔
اگست 2021 میں جب طالبان نے کابل کا کنٹرول سنبھالا، تو پاکستان میں بہت سے لوگوں نے ان کی واپسی کو ایک اسٹریٹجک کامیابی کے طور پر دیکھا، کیونکہ وہ طویل عرصے تک پاکستان کے اداروں کے زیر اثر سمجھے جاتے تھے۔
مگر آج صورت حال بدل چکی ہے۔ پاکستان کابل پر الزام عائد کرتا ہے کہ وہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو پناہ دیتا اور اس کی حمایت کرتا ہے۔ پاکستان نے اسلام آباد میں ہونے والے حالیہ مہلک حملے کا ذمہ دار ٹی ٹی پی کو ٹھہرایا، جس میں درجنوں افراد مارے گئے اور کئی زخمی ہوئے۔
چند روز قبل اسلام آباد اور کابل ٹی ٹی پی کے معاملے پر آمنے سامنے آ گئے، جس میں سرحد پار فائرنگ کے واقعات اور کابل و قندھار پر کیے گئے ایک فضائی حملے بھی شامل تھے۔ پاکستان کا کہنا ہے کہ اس نے ان حملوں میں ’ٹی ٹی پی کو نشانہ بنایا۔‘ دونوں جانب اموات ہوئیں۔ اس کے فوراً بعد دونوں ملکوں نے جنگ بندی کا اعلان کیا اور استنبول اور دوحہ میں مذاکرات کے کئی دور شروع ہوئے۔
ایک عجیب اتفاق کے طور پر، اسلام آباد حملوں سے ایک روز پہلے انڈین دارالحکومت دہلی ایک کار دھماکے سے لرز اٹھا، جس میں کئی افراد جان سے گئے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے حملہ آوروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا عزم ظاہر کیا۔ انہوں نے perpetrators، sponsors، اور collaborators جیسے الفاظ استعمال کیے جو دہلی عام طور پر اسلام آباد کے لیے استعمال کرتا ہے۔
اسلام آباد نے اس سے قبل ہی کابل پر الزام لگا دیا کہ وہ دہلی کے ساتھ مل کر اسلام آباد حملوں میں ملوث ہے، گویا آنے والے الزام سے پہلے ہی جواب دے دیا گیا ہو۔
شاید افغانستان کے بارے میں پاکستان کا تاثر وہی ہے جو پاکستان کے بارے میں انڈیا کا، یعنی ’شدت پسندی کا گڑھ۔‘ شاید اسی لیے پاکستان افغانستان پر بمباری کرتا ہے، تاکہ دنیا کو دکھا سکے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف کارروائی کر رہا ہے۔
مگر حقیقت اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے، اور اسلام آباد کے لیے ایک ’کیچ 22‘ کی صورت حال ہے۔ اقوام متحدہ کی 2023 کی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان میں 20 سے زائد علاقائی اور بین الاقوامی شدت پسند گروہ فعال ہیں، اور طالبان شاید ان سب پر قابو پانے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ طویل جنگ اور تحریکوں کی تاریخ کے باعث طالبان ایک متحد تنظیم کے طور پر کام نہیں کرتے۔
اگرچہ موجودہ افغان حکومت پاکستان کے مطالبات سے اتفاق بھی کر لے، پھر بھی مختلف دھڑے اپنی پسند کے شدت پسند گروہوں کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں۔
یہ درست ہے کہ حالیہ برسوں میں ٹی ٹی پی کی دہشت گردی کے سبب پاکستان نے بے شمار جانی نقصان اٹھایا ہے، لیکن اسے اپنے اختیارات اور راستے دوبارہ دیکھنے کی ضرورت ہے۔
انڈیا نے حال ہی میں افغانستان میں ایک زیادہ فعال حکمتِ عملی اختیار کی ہے، جو اس کی روایتی نرم طاقت کی پالیسی سے ہٹ کر ہے، ایک حد تک پاکستان کے اثر و رسوخ کی نقل کرتی ہوئی۔ اسلام آباد اور کابل نے برسوں کے اتار چڑھاؤ ساتھ جھیلے ہیں، اور پرانے تعلقات آسانی سے نہیں ٹوٹتے۔
دہلی کا یہ خیال کہ وہ کابل پر پاکستان جتنا اثر رکھ سکتا ہے، ایک حد تک سادہ لوحی ہے، کیونکہ معاملہ بہت زیادہ پیچیدہ ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاہم اسلام آباد کو حد سے زیادہ پراعتماد نہیں ہونا چاہیے۔ اسے افغانستان میں بغیر مشاورت کیے مزید فضائی حملوں سے بھرپور پرہیز کرنا چاہیے۔ مزید عسکری کارروائی افغانستان کو مزید غیر مستحکم کر سکتی ہے، جس کے نتیجے میں کابل میں ایک اور زیادہ بکھری ہوئی حکومت وجود میں آ سکتی ہے، جو پاکستان کے مطالبات پورا کرنا تقریباً ناممکن بنا دے گی۔
حالیہ جان لیوا واقعات اور ان کے بعد آنے والے بیانیے کو دیکھ کر یہ بات واضح ہے کہ تین میں سے کم از کم دو ریاستیں، پاکستان اور انڈیا، اپنے اندرونی سیاسی بیانیے کو سہارا دینے کے لیے ممکنہ کشیدگی بڑھانے سے گریزاں نہیں۔
مگر مذاکرات اور گولہ باری ایک ساتھ نہیں ہو سکتے۔ اسلام آباد کو خطرات کی ترتیب طے کرنی چاہیے اور افغانستان کے ساتھ پیشگی سفارت کاری میں مشغول ہونا چاہیے کیونکہ موجودہ حالات میں دہلی کے ساتھ بات چیت کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔
نائلہ محسود، پاکستانی محقق، جو سیاسیات اور بین الاقوامی تعلقات پر تحقیق کرتی ہیں، خصوصاً علاقائی سیاست اور سکیورٹی معاملات پر۔ X: @MahsudNaila
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔