پاکستان سے تعلقات خراب، افغانستان کو نئے تجارتی راستوں کی تلاش 

طالبان حکومت اب ایران، وسطی ایشیا اور دیگر ملکوں  کے ساتھ تعلقات قائم کر رہی ہے تاکہ مستقبل میں متبادل تجارتی راستے موجود ہوں۔

افغانستان اپنے تجارتی شراکت داروں کو متنوع بنانے کے لیے کوششیں کر رہا ہے۔ گذشتہ ماہ پاکستان کے ساتھ خونریز سرحدی جھڑپ کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات برسوں میں کم ترین سطح پرآ گئے جس سے سرحد کے دونوں جانب کے لوگ متاثر ہوئے۔

2021 میں طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد سے جنوبی ایشیا کے پڑوسی ملک بڑھتے ہوئے تلخ تنازعے کا شکار ہیں اور اسلام آباد نے الزام لگایا ہے کہ افغانستان پر سرحد پار سے ہونے والے حملوں کے پیچھے وہ عسکریت پسند ہیں جنہیں اس نے پناہ دے رکھی ہے۔ ان الزامات کی طالبان حکومت تردید کرتی ہے۔

افغانستان کے نائب وزیر اعظم برائے اقتصادی امور عبدالغنی برادر نے گذشتہ ہفتے تاجروں پر زور دیا کہ وہ ’اپنی تجارت کو پاکستان کی بجائے دوسرے متبادل راستوں کی طرف لے جائیں۔‘

عالمی بینک کے مطابق، پاکستان خشکی سے گھرے افغانستان کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے جو اسے چاول، ادویات اور خام مال فراہم کرتا ہے۔ 2024 میں افغانستان سے پاکستان کو برآمدات 45 فیصد رہیں۔ 

ان برآمدات میں سے 70 فیصد سے زیادہ، جن کی مالیت 1.4 ارب ڈالر ہے، انجیر، پستے، انگور اور انار جیسی اشیا شامل ہیں۔

جب 12 اکتوبر کو دونوں ملکوں کے درمیان جھڑپ کے بعد سرحد بند ہوئی، تو درجنوں افغان ٹرک جن پر خراب ہو جانے والا سامان لدا ہوا تھا پھنس گئے، جس کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان نازک جنگ بندی ہو گئی۔

پاکستان افغانستان جوائنٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (پی اے جے سی سی آئی) جو دوطرفہ تجارت کو فروغ دینے کی کوشش کرتا ہے، کے مطابق دونوں طرف سے نقصانات 10 کروڑ ڈالر سے تجاوز کر گئے اور 25000 تک سرحدی کارکن متاثر ہوئے۔

عبدالغنی بردار نے تاجروں کو خبردار کیا کہ اگر وہ پاکستان پر انحصار کرتے رہے تو کابل مداخلت نہیں کرے گا۔

مزید رکاوٹوں سے محتاط طالبان حکومت اب ایران، وسطی ایشیا اور دیگر ملکوں  کے ساتھ تعلقات قائم کر رہی ہے تاکہ مستقبل میں اگر کہیں بھی کوئی مسئلہ ہو تو ان کے پاس متبادل راستے موجود ہوں۔

روس کو انار کی برآمد

مغربی افغانستان کے شہر ہرات میں چیمبر آف کامرس کے سربراہ محمد یوسف امین نے کہا کہ وسط اکتوبر کے بعد ایران اور ترکمانستان کے ساتھ تجارت 60–70 فیصد بڑھ گئی ہے۔

کابل نے گذشتہ ماہ پہلی بار سیب اور انار روس بھیجے۔ روس واحد ملک ہے جس نے باضابطہ طور پر طالبان انتظامیہ کو تسلیم کیا ہے۔

طالبان کے رہنما وسیع تر پہچان اور غیر ملکی سرمایہ کاری کے خواہاں ہیں، لیکن سینیئر عہدے داروں پر پابندیوں کی وجہ سے سرمایہ کار محتاط ہیں۔

انڈیا کی وسیع منڈی سب سے بڑی کشش ہے۔ اتوار کو، سرکاری والی آریانہ افغان ایئرلائنز نے 1.4 ارب آبادی والے ملک کے لیے مال برداری کی قیمتیں کم کیں۔

دو دن بعد، کابل نے اپنے وزیر برائے تجارت و صنعت کو نئی دہلی بھیجا۔

اقتصادی تجزیہ کار اور سابق آئی ایم ایف مشیر تورک فرہادی نے کہا کہ ’افغانستان کے پاس اتنے پھل اور سبزیاں ہیں جنہیں وہ محفوظ نہیں کر سکتا کیوں کہ کولڈ سٹوریج کا انتظام نہیں ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’برآمد کرنا ہی واحد طریقہ ہے، اور جلد، اس سے پہلے کہ سامان خراب ہو جائے۔‘

کابل ایران کے چابہار بندرگاہ کو پاکستان کی جنوبی بندرگاہوں کا متبادل قرار دیتا ہے، لیکن فرہادی کا کہنا ہے کہ یہ راستہ دور، مہنگا اور تہران پر امریکی پابندیوں سے متاثر ہے۔

پریشانی

فرہادی نے کہا: ’دونوں ممالک کے لیے بہتر ہے کہ اس تجارتی جنگ کو ختم کیا جائے۔ انہیں ایک دوسرے کی ضرورت ہے۔‘

افغانستان، پاکستان کی 24 کروڑ لوگوں کی مارکیٹ اور سمندر تک رسائی پر انحصار کرتا ہے، جب کہ اسلام آباد چاہتا ہے کہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ وسطی ایشیا تک پہنچے تاکہ کپڑا اور توانائی کی تجارت ہو سکے۔

پاکستان کا مؤقف ہے کہ سرحد بند کرنے سے عسکریت پسندوں کی رسائی کم ہوتی ہے، لیکن اس کی معیشت بھی دباؤ محسوس کر رہی ہے۔

افغان سرحد کے قریب واقع شہر پشاور میں افغان پیداوار مارکیٹوں سے تقریباً غائب ہو گئی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایک اے ایف پی نمائندے نے بتایا کہ انگور چار گنا مہنگے ہیں اور ٹماٹر کی قیمت دگنی سے زیادہ ہو کر 200 روپے فی کلوگرام سے بڑھ گئی ہے۔

پیر کو پی اے جے سی سی آئی نے اسلام آباد سے فوری کارروائی کا مطالبہ کیا اور خبردار کیا کہ افغانستان اور وسطی ایشیا کے لیے مال برداری کے کنٹینر پاکستان میں پھنسے رہنے سے اخراجات بڑھ جائیں گے۔

ادارے نے کہا کہ ہر کنٹینر پر روزانہ ڈیڑھ سے دو سو ڈالر کے چارجز لگ رہے ہیں، اور مزید کہا، ’ہزاروں کنٹینرز پھنسے ہوئے ہیں، اجتماعی اقتصادی بوجھ ناقابل برداشت ہو گیا ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے۔‘

48 سالہ ٹرک ڈرائیور نعیم شاہ پاکستانی سرحدی شہر چمن میں چینی اور خوردنی تیل کے ساتھ افغانستان جانے کے لیے انتظار کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے ایک ماہ سے ادائیگی نہیں ہوئی۔ چاہے میں کسی کو بھی کال کروں، وہ کہتے ہیں پیسہ نہیں کیوں کہ سرحد بند ہے۔ اگر یہ دوبارہ نہ کھلی، تو ہم شدید پریشان ہوں گے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا