طالبان حکومت کے ترجمان نے منگل کو دعوٰی کیا ہے کہ افغانستان کے مختلف علاقوں میں پاکستان کی فضائی کارروائیوں میں کم از کم 10 افراد مارے گئے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک سوشل پوسٹ میں کہا: ’پاکستانی فوج نے ایک مقامی شہری کے مکان کو بمباری سے نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں خوست صوبے میں نو بچے (پانچ لڑکے اور چار لڑکیاں) اور ایک خاتون مارے گئے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ کنڑ اور پکتیکا کی سرحدی علاقوں کو بھی پاکستانی فوج نے فضائی کارروائیوں سے ہدف بنایا جہاں میں چار مزید شہری زخمی ہوئے۔
پاکستان نے تاحال افغان حکومت کے ترجمان کے اس الزام پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
پاکستان کی یہ مبینہ کارروائی پیر کو پشاور میں ایف سی ہیڈ کواٹرز پر ہونے والے خودکش حملے کے بعد سامنے آئی۔
صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت میں پولیس نے بتایا کہ پیر کو فیڈرل کانسٹیبلری کے ہیڈ کواٹرز کے مرکزی دروازے پر خودکش دھماکے کے نتیجے میں تین سکیورٹی اہلکار جان سے گئے جبکہ دو حملہ آوروں کو بھی مار دیا گیا تھا۔
پاکستان کے سرکاری میڈیا کے مطابق بتدائی تحقیقات میں سامنے آیا ہے کہ کہ پیر کو ایف سی ہیڈ کواٹرز پر حملہ کرنے والے تینوں بمبار افغان شہری تھے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان (اے پی پی) کے مطابق واقعے کی تحقیقات جاری ہیں تاکہ اس حملے میں مدد دینے والے افراد اور ممکنہ سپورٹ نیٹ ورک کا پتہ لگایا جا سکے جس پر ملکی انٹیلی جنس ایجنسیاں کام کر رہی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اب تک کسی بھی گروپ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔ تاہم پاکستان میں ماضی میں ہونے والے ایسے حملوں کے پیچھے عام طور پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے جن کے بارے میں اسلام آباد کا دعویٰ ہے کہ انہیں افغانستان میں محفوظ پناہ گاہیں میسر ہیں۔ دوسری جانب کابل ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔
رواں ماہ اسلام آباد میں ایک اور خودکش دھماکے میں 12 افراد جان سے گئے تھے، جس کی ذمہ داری پاکستان طالبان نے قبول کی تھی۔ اسلام آباد نے کہا کہ اس حملے میں ملوث عسکری سیل ہر قدم پر افغانستان میں موجود اعلیٰ کمانڈ کی رہنمائی میں تھا۔
پاکستان میں یہ حملے اکتوبر میں سرحد پار ہونے والی سرحدی جھڑپوں کے بعد ہوئے، جو ایک کمزور جنگ بندی کے ساتھ ختم ہوئی تھیں۔ دوحہ اور استبول میں مذاکرات کے باوجود کوئی پختہ معاہدہ طے نہیں پایا اور دونوں ممالک میں سکیورٹی کے معاملات پر اختلافات باقی ہیں۔
ادھر، وزیرِاعلیٰ خیبر پختونخوا محمد سہیل آفریدی کا فرنٹیئر کانسٹیبلری میں مرنے والوں کے نماز جنازے میں شرکت کی۔ وزیراعلیٰ نے ان کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے ان کی قربانیوں کو قوم کا سرمایہ قرار دیا۔
انہوں نے لواحقین سے اظہارِ تعزیت کیا اور بتایا کہ صوبائی حکومت ہر قدم پر ان کے ساتھ کھڑی ہے، ان کی قربانیاں دہشت گردی کے خلاف ان کے عزم مزید مضبوط کرتی ہیں۔
بنوں آپریشن میں 22 عسکریت پسند مارے گئے
دوسری جانب پاکستانی فوج نے منگل کو کہا ہے کہ بنوں میں انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر کی گئی کارروائی کے دوران فائرنگ کے شدید تبادلے میں 22 عسکریت پسند مارے گئے ہیں۔
آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا: ’پیر کو بنوں ضلع میں سکیورٹی فورسز نے انڈین پراکسی گروہ کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا اور اس دوران شدید فائرنگ کے تبادلے کے دوران 22 عسکریت پسند مارے گئے۔‘
بیان میں مزید کہا گیا: ’علاقے میں مزید مشتبہ افراد کے خاتمے کے لیے آپریشن جاری ہے۔ یہ اقدام پاکستان کی انسداد دہشت گردی مہم ’عزم استحکام‘ کے تحت ملک میں بیرونی معاونت یافتہ دہشت گردی کے خطرات ختم کرنے کے لیے کیا گیا۔‘