پاکستان کے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحٰق ڈار نے جمعے کو کہا ہے رواں سال دریائے چناب میں پانی کے بہاؤ میں دو مرتبہ غیر معمولی تبدیلیاں ریکارڈ کی گئیں، جس کی وجہ انڈیا کی طرف سے بغیر کسی پیشگی اطلاع کے پانی چھوڑنا تھا۔
اسلام آباد میں جمعے کو غیر ملکی سفارت کاروں کو بریفنگ دیتے ہوئے نائب وزیراعظم اسحٰق ڈار نے بتایا کہ دریائے چناب میں پانی کا شدید اتار چڑھاؤ 30 اپریل تا 21 مئی اور سات تا 15 دسمبر کو نوٹ کیا گیا۔
سندھ طاس معاہدہ (انڈس واٹر ٹیٹی) انڈیا اور پاکستان کے درمیان 1960 کا ایک معاہدہ ہے، جو ورلڈ بینک کی ثالثی میں تکمیل پایا تھا۔
سندھ طاس معاہدہ دریائے سندھ کے نظام کے پانیوں کو تقسیم کرتا ہے، جس کے تحت مشرقی دریاؤں (راوی، بیاس، ستلج) کو انڈیا اور مغربی دریاؤں (سندھ، جہلم، چناب) کو پاکستان کے لیے مختص کیا گیا ہے۔
کئی دہائیوں کے تنازعات کے باوجود، سندھ طاس معاہدہ لچکدار رہا، لیکن حالیہ برسوں میں دونوں ممالک کے درمیان تناؤ دیکھا گیا۔
انڈیا نے پڑوسیوں کے درمیان اپریل 2025 کی جھڑپوں کی وجہ سے تعاون کو عارضی طور پر معطل کر دیا تھا۔
اسحٰق ڈار کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب محض ایک دن قبل پاکستان کی دفتر خارجہ نے کہا تھا کہ اس نے دریائے چناب میں پانی کے بہاؤ میں اچانک تبدیلی پر انڈیا سے ایک خط کے ذریعے وضاحت طلب کی ہے۔
نائب وزیراعظم کا کہنا تھا کہ انڈیا نے اپریل 2025 میں سندھ طاس معاہدہ یک طرفہ طور پر معطل کیا اور دہلی ایک منظم انداز میں اسے کمزور کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ انڈیا نے پیشگی اطلاع کے بغیر دریائے چناب میں پانی چھوڑا اور یہ انڈین اقدام عالمی قانون اور ویانا کنونشن کے آرٹیکل 26 کی خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’پانی کے بہاؤ میں یہ تغیرات پاکستان کے لیے انتہائی تشویش کا باعث ہیں کیونکہ یہ انڈیا کی طرف سے دریائے چناب میں یک طرفہ طور پر پانی چھوڑنے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
نائب وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ’انڈیا کا حالیہ اقدام پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی واضح مثال ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’پاکستان نے انڈس واٹر کمشنر کے ذریعے باضابطہ سفارتی اور قانونی راستہ اختیار کیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے اس سال اپریل میں انڈیا کی طرف سے سندھ طاس معاہدے کی یک طرفہ منسوخی کا مشاہدہ کیا … لیکن اب جو ہم مشاہدہ کر رہے ہیں وہ انڈیا کی طرف سے مادی خلاف ورزیاں ہیں جو سندھ طاس معاہدے کے قلب پر حملہ کرتے ہیں جس کے بڑھتے ہوئے نتائج علاقائی استحکام اور بین الاقوامی قانون کے تقدس کے لیے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وزیر خارجہ اسحٰق ڈار نے مزید کہا کہ بھارتی اقدامات سے پاکستان کی غذائی سلامتی کو خطرہ لاحق ہے اور دہلی کی جانب سے آبی اقدامات انسانی بحران کو جنم دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
نائب وزیر اعظم نے کہا کہ سندھ طاس معاہدہ جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کا اہم ذریعہ ہے۔
انہوں مزید کہا کہ دہلی نے نے ہائیڈرولوجیکل ڈیٹا اور مشترکہ نگرانی کا عمل روک رکھا ہے۔
’انڈیا کی جانب سے تنازعات کے حل سے فرار عالمی قوانین کی نفی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ انڈین وزیر داخلہ نے معاہدہ بحال نہ کرنے اور پانی کا رخ موڑنے کا اعلان کیا ہے، جو پاکستان کی سلامتی، معیشت اور لوگوں کی زندگیوں کے لیے خطرہ ہے۔
اسحٰق ڈار نے مزید کہا کہ ’انڈیا کی پانی میں ہیرا پھیری نے ہمارے انڈس واٹر کمشنر کو اپنے انڈین ہم منصب کو خط لکھنے پر مجبور کیا ہے جس میں انڈس واٹر ٹریٹی میں فراہم کردہ معاملے پر وضاحت طلب کی گئی ہے۔‘