انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں دریائے توی میں پانی کے بہاؤ اور طغیانی کے بعد نئی دہلی کی طرف سے اتوار پاکستان کے دریاؤں میں پانی چھوڑنے کی اطلاع دی گئی ہے، جس کے بعد نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) نے دریائے چناب کے کنارے واقع علاقوں میں حفاظتی اقدامات شروع کر دیے ہیں۔
پاکستان میں مون سون بارشوں کے باعث پہلے ہی دریاؤں میں پانی کے بہاؤ میں اضافہ ہو چکا ہے اور اب انڈیا کی طرف سے مزید پانی چھوڑے جانے کے بعد سیلاب کا خطرہ مزید بڑھ گیا ہے۔ ملک میں حالیہ بارشوں کے دوران اب تک نہ صرف 798 افراد کی جان چکی ہے جبکہ بڑے پیمانے پر بنیادی ڈھانچے کو بھی نقصان پہنچا ہے۔
انڈین ہائی کمیشن کے مطابق انڈیا نے پاکستانی حکام کو ممکنہ سیلابی صورتِ حال سے آگاہ کیا ہے۔
انڈین حکام کے بقول دریائے توی میں پانی کی سطح بلند ہونے کے باعث فلڈ الرٹ جاری کیا گیا تھا، کیونکہ دریائے توی کا پانی آگے چل کر دریائے چناب میں شامل ہوتا ہے۔
این ڈی ایم اے کے میڈیا وِنگ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’انڈیا کی جانب سے الرٹ موصول ہونے سے پہلے ہی تیاریاں شروع کر دی گئی تھیں۔ اس وقت دریائے چناب میں ایک لاکھ 69 ہزار کیوسک پانی داخل ہو رہا ہے جبکہ ایک لاکھ 44 ہزار کیوسک خارج ہو رہا ہے، تاہم آئندہ 48 گھنٹوں میں یہ بہاؤ دو لاکھ کیوسک تک پہنچنے کا امکان ہے، جو درمیانے سے بلند درجے کے سیلاب کی طرف اشارہ کرتا ہے۔‘
اتھارٹی نے شہریوں کو ہدایت کی ہے کہ بلا ضرورت دریا کے کنارے نہ جائیں، نشیبی علاقوں سے دور رہیں اور ضرورت پڑنے پر مقامی انتظامیہ کے ساتھ مل کر انخلا کے لیے تیار رہیں۔ کسانوں کو بھی کہا گیا ہے کہ اپنے مویشی محفوظ مقامات پر منتقل کریں اور کھیتوں کو بچانے کے اقدامات کریں۔ این ڈی ایم اے کے مطابق ہنگامی امدادی ٹیمیں الرٹ پر ہیں تاکہ کسی بھی وقت فوری مدد فراہم کی جا سکے۔
کیا یہ رابطہ سندھ طاس معاہدے کے تحت ہوا؟
انڈیا کی جانب سے پاکستان کو ممکنہ سیلابی ریلے سے آگاہ کرنے کے بعد یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ آیا یہ اقدام سندھ طاس معاہدے کے تحت کیا گیا ہے یا یہ محض سفارتی رابطہ ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
رواں برس اپریل میں پہلگام واقعے کے بعد انڈیا نے یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کا اعلان کیا تھا، جس پر پاکستان نے موقف اختیار کیا تھا کہ انڈیا یکطرفہ طور پر معاہدہ معطل نہیں کر سکتا اور نہ ہی پاکستان کا پانی روک سکتا ہے۔
یہ جاننا ضروری ہے کہ اگر انڈیا یہ رابطہ دفتر خارجہ کے ذریعے کر رہا ہے تو یہ سفارتی رابطہ ہو گا لیکن اگر وہ یہ اطلاع انڈس واٹر کمشنر کے ذریعے دے رہا ہے تو یہ رابطہ سندھ طاس معاہدے کے تحت ہو گا۔
انڈس واٹر کمشنر مہر علی شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’یہ ایک سفارتی رابطہ ہے، انڈیا نے اس اطلاع کے لیے انڈس واٹر کمیشن کا چینل استعمال نہیں کیا۔‘
سابق سفیر عبدالباسط نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’یہ آبی رابطہ دراصل انڈیا کا ایک سٹنٹ ہے تاکہ دنیا کو دکھایا جا سکے کہ انہوں نے یہ اقدام انسانی ہمدردی کے تحت کیا ہے، ورنہ سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزیاں بدستور جاری ہیں۔‘
خیبر پختونخوا کے سیلاب سے متاثرہ ضلع صوابی میں تباہ کاریوں کے بعد امدادی کارروائیاں جاری pic.twitter.com/43H7IxASVj
— Independent Urdu (@indyurdu) August 20, 2025
ان کے مطابق سندھ طاس معاہدے کے تحت مشرقی دریا ستلج، بیاس اور راوی انڈیا کو دیے گئے جبکہ دریائے جہلم، چناب اور سندھ پاکستان کے حصے میں آئے، جن کا پانی انڈیا نہیں روک سکتا۔ اس لیے دریائے توی سے پاکستان کی طرف بہنے والا پانی بھی معاہدے کے دائرے میں آتا ہے۔
عالمی عدالت کا فیصلہ
واضح رہے کہ پاکستان نے انڈیا کے یکطرفہ اقدامات پر معاملہ عالمی ثالثی عدالت میں اٹھایا تھا۔ یہ مقدمہ انڈس واٹرز معاہدے کے آرٹیکل IX اور ضمیمہ G کے تحت دائر کیا گیا تھا۔
27 جون 2025 کو دی ہیگ میں قائم عدالت نے اپنے فیصلے میں واضح کیا تھا کہ انڈیا کے پاس معاہدے کو معطل کرنے کا کوئی قانونی جواز نہیں اور اس اقدام سے عدالت یا نیوٹرل ایکسپرٹ کے دائرہ اختیار پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
پاکستان نے اس فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا تھا کہ عدالت نے نہ صرف انڈیا کے مؤقف کو مسترد کیا بلکہ یہ بھی واضح کر دیا کہ سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کے حقوق محفوظ ہیں۔
پاکستان میں بارشوں اور سیلاب سے اموات
این ڈی ایم اے کی طرف سے جاری تازہ اعداد و شمار کے مطابق 26 جون سے اب تک ملک بھر میں بارشوں اور سیلاب سے جڑے واقعات میں اموات کی تعداد 798 ہو گئی ہے جن میں 203 بچے اور 119 خواتین شامل ہیں جبکہ ایک ہزار سے افراد زخمی بھی ہوئے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مجموعی طور پر سات ہزار سے زائد گھروں کو نقصان پہنچا جبکہ متاثرہ علاقوں میں 5 ہزار سے زیادہ جانور بھی مر چکے ہیں۔
محکمہ موسمیات کے مطابق ملک وسیع مون سون بارشوں اور گلگت بلتستان میں گلیشیائی جھیلوں کے پھٹنے کے واقعات سے پانی کے بڑے اخراج کے باعث پاکستان کے بڑے آبی ذخائر اب اپنی مکمل گنجائش تک بھر گئے ہیں۔