دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان سندھ طاس معاہدے کے تحت اپنے جائز حقوق اور مفادات کے تحفظ کے لیے تمام ضروری اقدامات کرے گا۔
انڈین وزیر داخلہ امت شاہ کے پاکستان کے ساتھ سندھ طاس معاہدے کو کبھی بحال نہ کرنے کے بیان پر ہفتے کو ردعمل ظاہر کرتے ہوئے پاکستانی دفتر خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ ’پاکستان اپنی طرف سے اس معاہدے سے مکمل وابستگی رکھتا ہے اور اس کے تحت اپنے جائز حقوق اور مفادات کے تحفظ کے لیے تمام ضروری اقدامات کرے گا۔‘
پاکستان کا کہنا ہے کہ انڈین وزیر داخلہ امت شاہ کا پاکستان کے ساتھ سندھ طاس معاہدے کو کبھی بحال نہ کرنے کا بیان بین الاقوامی معاہدوں کی حرمت کے حوالے سے سنگین بے اعتنائی کا عکاس ہے۔
ترجمان پاکستانی دفتر خارجہ شفقت علی خان نے کہا کہ ’سندھ طاس معاہدہ کوئی سیاسی بندوبست نہیں بلکہ ایک بین الاقوامی معاہدہ ہے، جس میں یکطرفہ اقدام کی کوئی گنجائش نہیں۔‘
پاکستانی دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ ’بھارت کا معاہدے کو معطل کرنے کا غیر قانونی اعلان بین الاقوامی قانون، خود معاہدے کی شقوں اور ریاستوں کے باہمی تعلقات کے بنیادی اصولوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
’اس نوعیت کا رویہ ایک غیر ذمہ دارانہ اور خطرناک مثال قائم کرتا ہے جو بین الاقوامی معاہدوں کی ساکھ کو نقصان پہنچاتا ہے اور ایک ایسی ریاست کے اعتبار اور قابلِ بھروسہ ہونے پر سنجیدہ سوالات اٹھاتا ہے جو کھلے عام اپنے قانونی فرائض سے انکار کرتی ہے۔‘
پاکستانی دفتر خارجہ کے مطابق پانی کو ’سیاسی مقاصد کے لیے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا‘ غیر ذمہ دارانہ اور مہذب ریاستی طرزِ عمل کے تسلیم شدہ اصولوں کے منافی ہے۔
قبل ازیں انڈیا کے وزیر داخلہ امت شاہ نے ہفتے کو کہا کہ نئی دہلی اسلام آباد کے ساتھ سندھ طاس معاہدہ کبھی بحال نہیں کرے گا اور پاکستان جانے والے پانی کا رخ اندرون ملک استعمال کے لیے موڑ دیا جائے گا۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق انڈین وزیر خارجہ نے ہفتے کو ٹائمز آف انڈیا کو انٹرویو میں کہا: ’نہیں یہ (سندھ طاس معاہدہ) کبھی بحال نہیں ہو گا۔ ہم وہ پانی جو پاکستان جا رہا تھا، نہر بنا کر راجستھان لے جائیں گے۔ پاکستان کو وہ پانی نہیں ملے گا جو اسے ناجائز طور پر مل رہا تھا۔‘
انڈپینڈنٹ اردو نے انڈین وزیر داخلہ کے اس بیان پر ردعمل کے لیے پاکستانی وزارت خارجہ سے رابطہ کیا ہے۔
تاہم پاکستان متعدد بار کہہ چکا ہے کہ سندھ طاس معاہدے میں یک طرفہ طور پر دستبرداری کی کوئی گنجائش نہیں اور پاکستان جانے والے دریائی پانی کو روکنا ’جنگی اقدام‘ تصور کیا جائے گا۔
اسلام آباد انڈیا کے معاہدے کو معطل کرنے کے فیصلے کے خلاف بین الاقوامی قانون کے تحت قانونی چارہ جوئی کے امکانات بھی تلاش کر رہا ہے۔
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں 26 شہریوں کی اموات کا الزام اسلام آباد پر عائد کرکے انڈیا نے سندھ طاس معاہدے میں اپنی شرکت کو ’معطل‘ کر دیا تھا۔ 1960 میں ہونے والا یہ معاہدہ دریائے سندھ کے پانی کے نظام کے استعمال کو کنٹرول کرتا ہے۔
نئی دہلی نے پہلگام واقعے کو دہشت گردی قرار دیا تھا جبکہ پاکستان نے اس واقعے میں ملوث ہونے کی تردید کی۔
بعدازاں اسی واقعے کو جواز بنا کر انڈیا نے چھ اور سات مئی کی درمیانی شب پاکستان کے مختلف مقامات پر حملے کیے، جس کے بعد دونوں فریقوں کے درمیان لائن آف کنٹرول پر شدید فائرنگ کا تبادلہ ہوا اور ایک دوسرے کے علاقوں میں میزائل اور ڈرون حملے کیے گئے، جن میں بنیادی طور پر فوجی تنصیبات اور ایئر بیسز کو نشانہ بنایا گیا جبکہ پاکستان کا کہنا ہے کہ انڈیا کے تین فرانسیسی رفال لڑاکا طیاروں سمیت چھ جنگی طیارے مار گرائے گئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جوہری ہتھیاروں سے لیس حریفوں کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی نے علاقائی امن کو خطرے میں ڈال دیا اور بالآخر 10 مئی کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر اعلان کیا کہ پاکستان اور انڈیا فوری طور پر سیزفائر پر راضی ہوگئے۔
تاہم اس جنگ بندی کے بعد بھی یہ معاہدہ بدستور معطل ہے۔ سندھ طاس معاہدے سے پاکستان کے 80 فیصد زرعی رقبے کو انڈیا سے نکلنے والے تین دریاؤں کے پانی فراہمی کی ضمانت ملی تھی۔
گذشتہ ماہ روئٹرز نے رپورٹ کیا تھا کہ انڈیا انتقامی اقدام کے طور پر اس بڑے دریا سے اپنی ضرورت کے لیے پانی لینے میں نمایاں اضافہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، جو پاکستان کے کھیتوں کو سیراب کرتا ہے۔