ہیگ میں قائم مستقل ثالثی عدالت (پی اے سی) نے جمعے کو فیصلہ دیا ہے کہ انڈیا کا سندھ طاس معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل کرنے کا اقدام ’عدالت کی قانونی حیثیت پر اثرانداز نہیں ہو سکے گا۔‘
عدالت نے قرار دیا کہ کسی ایک فریق کی جانب سے ثالثی کی کارروائی شروع ہونے کے بعد لیا گیا یکطرفہ فیصلہ، چاہے وہ انڈیا کی حالیہ کارروائی کو معاہدے کی معطلی کہا جائے یا کچھ اور، عدالت کے دائرہ اختیار کو متاثر نہیں کرتا۔
پی سی اے کے جاری کردہ ضمنی supplemental ایوارڈ میں کہا گیا کہ انڈیا کا یہ اقدام ’عدالت کی خود مختاری یا دائرہ اختیار کو محدود نہیں کر سکتا۔‘
اعلامیے کے مطابق سندھ طاس معاہدے میں اسے ’معطل کرنے کی کوئی شق موجود نہیں اور نہ ہی کوئی فریق یکطرفہ طور پر تنازعات کو حل کیے جانے کے عمل کو روک سکتا ہے۔‘
فیصلے میں کیا کہا گیا؟
ثالثی کی مستقل عدالت نے یہ بیان 27 جون کو جاری کیا، جو 1960 میں قائم ہونے والے معاہدے کے تحت پاکستان اور انڈیا کے درمیان جاری مقدمے کا ایک حصہ ہے۔
مسودے کے مطابق پاکستان نے انڈیا کے خلاف سندھ طاس معاہدہ کی شقوں کی تشریح اور نفاذ سے متعلق تنازعات کو حل کرنے کے لیے 19 اگست، 2016 کو ثالثی عدالت سے رجوع کیا تھا۔
پاکستان کا موقف ہے کہ انڈیا نے کشن گنگا اور راتلے پن بجلی منصوبوں کے ذریعے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔
پاکستان نے اس حوالے سے ثالثی کا مطالبہ کیا جبکہ انڈیا نے عالمی بینک سے ایک ’غیر جانب دار ماہر‘ کی تقرری کی درخواست دی جسے 2022 میں مقرر کر دیا گیا تھا۔
اس کے بعد چھ جولائی 2023 کو ثالثی کی مستقل عدالت نے فیصلہ دیا تھا کہ وہ مکمل طور پر اس مقدمے کو سننے کی مجاز ہے پھر چاہے نیوٹرل ایکسپرٹ کی تقرری کیوں نہ ہو چکی ہو۔
پاکستان کا خیر مقدم
پاکستان نے سندھ طاس معاہدے کے حوالے سے مستقل عدالت برائے انصاف کے تحت ثالثی عدالت کے فیصلے کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ پاکستان کے مؤقف کی تائید ہے، انڈیا کو معاہدے کو یک طرفہ طور پر معطل کرنے اور ثالثی عدالت کے کردار کو محدود کرنے کا اقدام درست نہیں۔
حکومت پاکستان نے ایک بیان میں کہا ’حکومتِ پاکستان کا سندھ طاس معاہدے کے حوالے سے مستقل ثالثی عدالت کے فیصلے کا خیر مقدم کرتی ہے۔
’وزیرِ اعظم شہباز شریف کا اس حوالے سے واضح مؤقف ہے کہ پاکستان، جموں و کشمیر، پانی، تجارت اور دہشت گردی سمیت تمام تصفیہ طلب مسائل پر انڈیا کے ساتھ بامعنی بات چیت کے لیے تیار ہے۔‘
انڈین ردعمل
انڈیا نے مستقل ثالثی عدالت (پی سی اے) کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے عدالت کو ہی غیرقانونی قرار دے دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انڈین اخبار’دی ہندو‘ کے مطابق انڈیا کی وزارتِ خارجہ نے مستقل ثالثی عدالت کے ضمنی فیصلے کو ’دو ٹوک انداز میں مسترد‘ کرتے ہوئے کہا ہے کہ انڈیا اس عدالت کو تسلیم ہی نہیں کرتا۔
انڈین وزارت کے بیان میں کہا گیا: ’انڈیا نے کبھی بھی اس نام نہاد ثالثی عدالت کی قانونی حیثیت کو تسلیم نہیں کرتا۔ انڈیا کا مؤقف ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ اس نام نہاد ثالثی ادارے کا قیام خود سندھ طاس معاہدے کی سنگین خلاف ورزی ہے، اس لیے اس عدالت میں ہونے والی تمام کارروائیاں اور اس کے تمام فیصلے غیرقانونی اور از خود کالعدم ہیں۔‘
دی ہندو کے مطابق انڈین وزارت خارجہ نے کہا کہ پہلگام حملے کے بعد انڈیا نے ایک خود مختار ریاست کے طور پر بین الاقوامی قانون کے تحت اپنے حقوق استعمال کرتے ہوئے سندھ طاس معاہدے کو ’معطل‘ کر رکھا ہے اور یہ معاہدہ اس وقت تک معطل رہے گا جب تک پاکستان ’سرحد پار دہشت گردی‘ کی حمایت کو قابل بھروسہ اور ناقابل واپسی طور پر ترک نہیں کرتا۔
انڈین وزارت نے ثالثی عدالت کے حالیہ فیصلے کو ’پاکستان کے کہنے پر رچایا گیا ڈرامہ‘ قرار دیا۔
پس منظر
رواں برس انڈیا کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے علاقے پہلگام میں ’شہریوں پر حملے‘ کے بعد ملک کی جانب سے کئی اقدام سامنے آئے تھے، ان میں سے ایک سندھ طاس معاہدے کو فوری طور پر معطل کرنا تھا۔
انڈیا کا یہ اقدام یکطرفہ تھا، جس پر ثالثی کی مستقل عدالت نے یہ ’کارروائی عدالت کی خود مختاری یا دائرہ اختیار کو محدود نہیں کر سکتی‘بیان سامنے آیا ہے۔
پی سی اے کو 1899 میں دی ہیگ میں قائم بین الاقوامی تنازعات حل کرنے کے لیے پہلے عالمی نظام کے طور پر قائم کیا گیا تھا۔
یہ ریاستوں، اس سے منسلک اداروں اور بین الاقوامی تنظیموں کو تنازعات حل کرنے کی مختلف سہولیات فراہم کرتا ہے، جن میں ثالثی، مفاہمت، مصالحت اور حقائق معلوم کرنے جیسی خدمات فراہم کرتا ہے۔