عورت بھی انسان ہے، اس حقیقت کو ماننے کو معاشرہ تیار کیوں نہیں؟ وہ کوئی مالی اثاثہ یا جاگیر نہیں۔
عورت انسان ہے وہ سوچ سکتی ہے دیکھ سکتی ہے۔ بول سکتی ہے اس کے سینے میں بھی دل دھڑکتا ہے۔ وہ بھی محبت کر سکتی ہے کیونکہ محبت ایک فطری عمل ہے۔
کسی بھی عورت کو عمر کے کسی بھی حصے میں پیار ہو سکتا ہے۔ وہ اپنی ازدواجی زندگی کا آغاز بلوغت کے بعد کسی بھی عمر کے حصے میں کر سکتی ہے۔ اس کو پسند کی شادی کا حق ہمارا دین دیتا ہے۔
پر جو حقوق 14 سو سال پہلے عورت کو ملے، وہ موجودہ معاشرے نے رسم و رواج، قبائلی نظام، ذات پات اور غیرت کے نام پر سلب کر لیے ہیں۔
معاشرہ عورت کو ایک کٹ پتلی کی طرح ڈوریوں پر چلاتا ہے۔ عورت سماجی طور پر جن رشتوں کے ساتھ بندھی ہوئی ہے وہ اس کو کٹ پتلی بنا کر اس کی ڈوریں اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں۔
اگر عورت کچھ بھی اپنی مرضی سے کرنے کی کوشش کرے تو ان ڈوریوں کو اتنا کھینچ دیا جاتا ہے کہ وہ حرکت کرنے سے قاصر ہو جاتی ہے۔ یہاں تک کہ ایک دن ان پابندیوں کی وجہ سے وہ دم گھٹ کر مر جاتی ہے۔
اگر کوئی کٹھ پتلی جینے کی امنگ میں بغاوت کی کوشش کرے تو اس کو اپنے خاندان والے ہی مار کر کسی کونے میں دفنا دیتے ہیں۔
وہ خاندان جن کا کام اس کو محبت تحفظ اور شفقت دینا تھا، وہی اس کے دشمن بن جاتے ہیں۔ وہ جنہوں نے اس کو اڑنے کے لیے پر دینے تھے وہ ہی اس تتلی کو اڑنے سے پہلے کچل دیتے ہیں۔
وہ کٹھ پتلی پہلے بھی کب زندہ ہوتی ہے، باہر نہیں جا سکتی، اپنی مرضی کا مضمون نہیں لے سکتی، اعلیٰ تعلیم حاصل نہیں کر پاتی، اپنی پسند سے شادی نہیں کر سکتی۔
اپنی مرضی سے بال نہیں چھوٹے کروا سکتی، حسن سنوار نہیں سکتی، اپنی پسند کا لباس نہیں پہن سکتی۔
کچھ گھروں میں تو اس کے اچھے کھانے پینے، پڑھنے اور ٹی وی دیکھنے پر پابندی ہوتی ہے۔
یہ خدشہ ہوتا ہے کہ ان میں رومانوی جذبات نہ ابھر جائیں۔ پر یہ تو فطری عمل ہے انسان زندگی میں محبت اور ساتھی کا طلب گار ہوتا ہے۔
وہ اپنے گھر بسا ہوا دیکھنا چاہتا ہے۔ طاقت ور بااثر امیر مرد کو یہ اختیار مل جاتا ہے لیکن کسی بھی طبقے سے تعلق رکھنے والی عورت کے لیے اب بھی یہ آزادی میسر نہیں۔
بس وہ زندگی گزار رہی ہوتی ہے جب کسی روز فطری خواہشات اس کو فرسودہ روایات سے بغاوت پر اکساتی ہیں تو اس کو اس کا خاندان، قبیلہ غیرت کا مسئلہ بنا لیتا ہے۔
اپنی مرضی سے لڑکی کا پڑھنا، نوکری کرنا اور شادی کی خواہش کرنا ہمارے ملک میں غیرت کا مسئلہ بن جاتا ہے۔
جب یہ کوئی غیرت کا مسئلہ نہیں صنف نازک کا بنیادی حق ہے۔ یہ حق اس کو دین اسلام دیتا ہے اور پاکستان کا آئین بھی۔
پر پاکستان کا برادری سسٹم، ذات پات اور جرگہ سسٹم شاید پتھر کے دور کی روایات کا پیروکار ہے۔
یہ لوگ پیسے اسلحے اور طاقت کے ایوانوں کا حصہ ہیں اور اپنی مرضی سب پر مسلط کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور خواتین غریب طبقے کے مرد ان کے استحصال کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔
ہمارے ملک میں نظام انصاف کا کوئی حال نہیں، اس لیے طاقت ور بےخوف جرم کرتے ہیں اور سزا سے صاف بچ نکل جاتے ہیں۔
ہم جتنے بھی ہیش ٹیگ بنا لیں، کیس سالوں عدالتی راہداریوں میں لٹکتے رہتے ہیں۔ پھر مظلوم کو ہی چپ کر کے پیچھے ہٹنا پڑتا ہے اور طاقت ور مجرم وکٹری کا نشان بنا کر واپس اپنی عیش و عشرت کی زندگی میں لوٹ جاتا ہے۔
اب اگر اس ہفتے ہونے والے ہم دو سانحات کی طرف دیکھیں تو پنجاب میں ایک جواں سال طالبہ کو رشتے سے انکار پر اغوا کر کے قتل کر دیا گیا۔
دوسری طرف بلوچستان میں ایک جرگے نے اپنا سفاکانہ فیصلہ ایک خاتون اور مرد پر مسلط کر کے ان کو کاروکاری کرتے ہوتے قتل کر دیا۔
بانو اور احسان اللہ کو عید سے قبل ڈیگاری میں قتل کیا گیا۔ ان واقعات کی وجہ سے سوشل میڈیا پر شور مچ گیا کہ انصاف کرو۔ پہلے جو صوبائی حکومتیں غفلت کی نیند سو رہی تھیں وہ تھوڑا نیند سے بیدار ہوئی۔
بلوچستان کی حکومت نے یہ کہا کہ مرد اور عورت الگ، الگ شادی شدہ تھے اور پھر ایک ملزم کو بنا ہتھکڑی ایک روزہ ریمانڈ پر بھیج دیا گیا۔
جہاں سیاسی قیدیوں کے 14/14 دن کے ریمانڈ ہوتے ہیں وہاں دو قتل کرنے والے سردار کو بنا ہتھکڑی ایک دن کے ریمانڈ پر بھیجا گیا۔
ساتھ ہی الٹا وکٹم بلیمنگ بھی کر دی گئی یعنی الٹا متاثرہ پر الزام دھر دیا گیا تاکہ ہماری جذباتی اور جنونی قوم مقتولین کے خلاف ہو جائے۔
اب تک سب کی ہمدردیاں ان کے ساتھ تھیں۔ پر اب بہت سے لوگ حکومتی پریس کانفرنس کے بعد مقتولین کے خلاف ہو جائیں گے۔
اگر اس سانحے میں کوئی غلط ہے تو وہ صرف گولی چلانے والے غلط ہیں۔ مرنے والے تو دوبارہ زندہ ہو کر اپنے کردار کی گواہی دینے نہیں آ سکتے اس لیے ان کی کردار کشی سے پرہیز کرنا چاہیے۔
وہ بلوچ عورت اتنی بہادر اور باوقار تھی اس کے قدم مقتل میں بھی نہیں ڈگمگائے۔ اس کے سر پر چادر اور ہاتھ میں قرآن تھا۔ اس نے کہا کہ ’صرف گولی مارنے کی اجازت ہے۔‘
قاتلوں کی آواز آئی اس سے قرآن لے لیا جائے۔ محبت کا حق بھی لے لیا، پسند کی شادی کا حق بھی لے لیا، اس سے قرآن بھی لے کر اس کی زندگی کا حق بھی چھین لیا۔
پوسٹ مارٹم کے مطابق بانو کو ایک گولی سر میں ماری گئی اور باقی چھ جسم میں لگیں۔
کاش اس کو جینے کا حق دیا جاتا، اس کا عزم بہادری صرف دلیری سے موت کا سامنے کرنے کا استعارہ نہ بنتی۔
وہ جیتی اپنی پسند سے جیتی، خوش رہتی اور اپنی محبت کو پروان چڑھاتا ہوا دیکھتی۔ اب بھی اس کی پسند محبت امر ہوئی، اسے اور احسان اللہ کو ساتھ قتل کیا گیا۔
وہ دنیا میں بھی ساتھی تھے اور اپنی ابدی زندگی میں بھی ساتھی بن گئے۔ پورا پاکستان قاتلوں کے لیے سزا کا مطالبہ کر رہا ہے۔ پر قبائلی سردار بہت بااثر ہیں۔
یہاں تک کہ بانو کی ماں سردار کے حق میں بول رہی ہے اور بیٹی کے قتل کو درست قرار دے رہی ہے۔ یوں لواحقین کی طرف سے معافی ملنے پر ملزمان شاید آگے چل کر بچ جائیں۔
شاید ہی انصاف ہو لیکن اس گھٹن کے ماحول میں ان دونوں کی محبت ایک معجزے کی مانند ہے۔ بغاوت محبت گھٹن جبر کے ماحول میں ہی جنم لیتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کاش کوئی ان کی محبت کی قدر کرتا ان کو بچا لیتا۔ پر وہاں شاید کوئی انسان نہیں تھا کچھ بھیڑیے ان کو گھیرے میں لیے ہوئے تھے تاکہ ان کی جان لے سکیں تو کچھ درندے تھوڑا پیچھے اس سارے ظلم کو فون پر ریکارڈ کر رہے تھے۔
غیرت کے نام پر یہ سفاکی کب تک جاری رہے گی؟ قبائل جرگوں کی غیرت سود بھوک پیاس قحط مہنگائی قتل ظلم دھاندلی پر کیوں نہیں جاگتی؟ ان کی غیرت عورت پر شروع ہوا عورت پر ختم ہو جاتی ہے۔
جس دور میں دوسرے ممالک کی لڑکیاں خلا کو تسخیر کر رہی ہیں، وہاں ہمارے ملک میں ان کو کاروکاری اور ونی جیسی رسموں کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے۔
ہمارے ملک کا نظام ایک ریڑھی والے کی ریڑھی کو تو الٹا لٹکا سکتا ہے، کسی غریب کو روٹی کی چوری پر مار مار کر بھرکس نکال سکتا ہے، پر امیر اور طاقت ور کے جرائم کی پردہ پوشی کرتا ہے۔
اسی طرح پنجاب میں ایک 19 سالہ طالبہ کو صرف اس لیے مار دیا گیا کیونکہ اس کے گھر والے اس کے رشتے سے اپنے ایک رشتہ دار کو منع کر چکے تھے۔
رشتہ دار نے بدلہ لینے کی ٹھانی اور ایک پڑھی لکھی بچی سے زندگی کا حق چھین لیا۔
جس ملک میں عدالتیں سیاسی مقدمات میں الجھی ہوئی ہوں، وہاں انسانی حقوق کے مقدمات سالوں لٹکے رہتے ہیں۔
اس سانحے کا مجرم گرفتار ہو گیا پر سزا کب ہو گی، کتنے سال لگ جائیں گے معلوم نہیں۔ اس دوران اور کتنی بنت حوا ظلم زیادتی کا شکار ہو جائیں کیونکہ مجرمان یہ بات جانتے ہیں کہ ان پر ہاتھ ڈالنا آسان نہیں وہ قتل کر کے بھی بچ نکل جائیں گے۔
نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔