پنجاب اسمبلی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی حکومتی رکن نے حزب اختلاف کے اراکین پر کام کی جگہ (ورک پلیس) پر ہراسانی کا الزام عائد کیا ہے۔
حکومتی خاتون رکن اسمبلی راحیلہ خادم حسین نے اپوزیشن کے چار اراکین کے خلاف ورک پلیس پر ہراسمنٹ کی درخواست سپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان کے دفتر میں جمع کروائی ہے۔
راحیلہ خادم حسین نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’اپوزیشن کے چار اراکین کی جانب سے مجھے اور ہماری وزیراعلیٰ مریم نواز سمیت دیگر خواتین کو مسلسل ہراساں کیا جاتا ہے۔ اسمبلی میں اس طرح کی حرکتوں پر ان اراکین کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہیے۔‘
انہوں نے بتایا کہ اپوزیشن کے خلاف دو درخواستیں جمع کروائی گئی ہیں اور ’سپیکر نے ہدایت کی ہے کہ میں ان چار اپوزیشن اراکین کے نام ظاہر نہ کروں، تاہم وہ بیرون ملک دورے سے واپسی پر اس درخواست پر سماعت کریں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’وزیراعلیٰ مریم نواز کی بجٹ تقریر کے دوران ہنگامہ آرائی پر معطل 26 اراکین میں خواتین کو ہراساں کرنے والے چار اراکین بھی شامل ہیں۔
راحیلہ خادم حسین نے سپیکر پنجاب اسمبلی کو جمع کروائی گئی اپنی درخواست میں مؤقف اختیار کیا کہ اپوزیشن ارکانِ اسمبلی نے انتہائی غیر پارلیمانی زبان استعمال کی، گالیاں دیں اور ورک پلیس پر ہراساں کیا جبکہ اپوزیشن کی خاتون رکن اسمبلی بھی گالیاں دینے میں پیش پیش رہیں۔
درخواست میں مزید کہا گیا کہ ’اپوزیشن ارکانِ اسمبلی نے قواعد کی پاسداری نہیں کی۔ اپوزیشن ارکانِ اسمبلی نے حلف کی خلاف ورزی کی، اس لیے نااہلی کے مطالبے پر سپیکر پنجاب اسمبلی رولنگ دیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اپوزیشن اراکین کے خلاف 2010 میں بننے والے رولز کے مطابق سزا کا تعین کیا جائے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن رہنما امتیاز احمد شیخ نے کہا کہ ’جن 26 اراکین کو سپیکر کی جانب سے معطل کیا گیا تھا، دونوں اطراف سے رہنماؤں کے مذاکرات میں ضابطہ اخلاق طے کرتے ہوئے معاملہ ختم ہو چکا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن رہنماؤں کے درمیان ملاقاتوں میں راحیلہ خادم بھی شریک رہیں۔ اس دوران انہوں نے نہ کبھی ہراسانی کا کوئی الزام ظاہر کیا اور نہ ہی ایسی کوئی بات کی۔ اب اچانک انہیں ہراسمنٹ یاد آگئی ہے۔‘
امتیاز شیخ کے بقول: ’ہمارا کوئی رکن کسی خاتون کو ہراساں کیوں کرے گا؟ ہماری اپنی خواتین اراکینِ اسمبلی میں موجود ہوتی ہیں۔ ان کے سامنے ایسی حرکت کوئی کیسے کر سکتا ہے؟ راحیلہ خادم جھوٹا الزام لگا کر صرف سیاسی پوائنٹ سکورنگ کر رہی ہیں۔ انہیں عورت کارڈ کھیل کر ایوان کا تقدس پامال نہیں کرنا چاہیے۔‘
اس سے قبل وزیراعلیٰ پنجاب کی طویل بجٹ تقریر کے دوران فحش جملے ادا کرنے اور ہلڑ بازی کے الزام میں اپوزیشن کے 26 اراکین کی رکنیت معطل کر کے ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھجوا دیا گیا تھا، لیکن حکومت اور اپوزیشن رہنماؤں کے درمیان مذاکرات میں گذشتہ روز (جمعرات کو) یہ معاملہ طے پا چکا ہے۔
مسلم لیگ ن کے پارلیمانی رہنما مجتبیٰ شجاع الرحمٰن میڈیا کے سامنے یہ معاملہ حل ہونے کا اعلان کر چکے ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’راحیلہ خادم حسین نے سپیکر کو ہراسانی کی جو درخواست دی ہے، اس بارے میں فیصلہ سپیکر ملک احمد خان بیرون ملک دورے سے واپسی پر کریں گے۔‘