عمر کوٹ میں سپیروں کی بستی: سانپ پکڑنا نہ سیکھا تو شادی نہیں ہوگی

سندھ کے ضلع عمر کوٹ کی جوگی کالونی سپیروں کی بستی ہے، جہاں کے مکین اپنی بیٹیوں کو جہیز میں شکار کرنے والا کتا، گیدڑ سنگھی اور بہت کچھ دیتے ہیں، مگر وہ انہیں کالا سانپ دینا کبھی نہیں بھولتے۔

سندھ کے ضلع عمرکوٹ کے وہرو نامی قصبے میں واقع ’جوگی کالونی‘ صوبے میں سپیروں کی سب سے بڑی بستی مانی جاتی ہے۔ اس کالونی کے ہر گھر میں کسی نہ کسی قسم کا سانپ ضرور ہوتا ہے۔

جدید دور کے باوجود یہاں کے مکین اپنے بچوں کو روایتی تعلیم کے بجائے اپنا خاندانی سپیروں والا کام سکھا رہے ہیں تاکہ ’خاندانی جوگ‘ یعنی سپیرے کی سانپ کے ساتھ وابستگی جاری رہے۔

جوگی کالونی کو یہاں کے رہائشیوں نے اپنے مکھیا استاد مصری جوگی کا نام دیا، جن کا حال ہی میں انتقال ہوگیا ہے۔ اب ان کی جگہ ان کے بیٹے جمن فقیر بستی کے جوگیوں کی رہنمائی کرتے ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں جمن فقیر جوگی نے بتایا کہ یہ کام ان کا کاروبار نہیں ہے بلکہ ایک نسل درنسل چلنے والی روایت ہے۔ ’اس کام سے اب پیسے نہیں ملتے مگر اس کے باجود ہم اپنی نئی نسل کو روایتی سپیرے کا کام سکھا رہے ہیں تاکہ یہ خاندانی جوگ چلتا رہے۔‘

پنجاب اور شمالی سندھ میں رہنے والے جوگی مسلمان ہیں مگر عمرکوٹ کی اس بستی کے باسی ہندو ہیں۔

بقول جمن فقیر جوگی ان کا تعلق گرناری جوگی قبیلے سے ہے، جسے شاہ عبدالطیف بھٹائی نے بھی اپنی شاعری میں گایا ہے۔ یہ قبیلہ سندھ میں بسنے والے جوگیوں کا ایک بڑا قبیلہ سمجھا جاتا ہے۔ گرناری جوگی کان میں بڑے والے بالے پہنتے ہیں اور سانپ کو پہچاننے اور پکڑنے میں انتہائی مہارت رکھتے ہیں۔

جمن فقیر جوگی کے مطابق: ’ہم اپنے نوزائیدہ لڑکوں کو سُتی (بچے کو دی جانے والی پہلی خوراک) میں سانپ کا گوشت کھلاتے ہیں، جس سے وہ روایتی گرناری جوگی بن جاتا ہے اور اسے سانپ کی خوشبو سونگھنے کے ساتھ سانپ کی لکیر دیکھ کر بھی اس کی پہچان ہوتی ہے۔‘

جوگی بنیادی طور پر خانہ بدوش قبیلہ ہے، جو سانپوں کے ساتھ ایک جگہ سے دوسری جگہ نقل مکانی کرتے ہیں اور لوگوں کو بین پر سانپ کا رقص دکھانے کے ساتھ ان کی قسمت کا احوال بھی بتاتے ہیں، جس کے بدلے لوگ انہیں انعام میں نقد رقم دیتے ہیں۔

اس کے علاوہ جوگی گیدڑ سنگھی، من یا زہر مُہرہ بھی فروخت کرتے ہیں۔ جوگیوں کے بقول من یا زہر مہرہ سانپ کے منہ سے نکلتا ہے اور جس جگہ سانپ کاٹ لے اس جگہ پر زہر مُہرہ رکھنے سے وہ سارا زہر چوس لیتا ہے۔

ان جوگیوں کو آباد کرنے کے لیے 1970 کی دہائی میں اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے عمرکوٹ میں دڑو کے مقام پر ایک سرکاری پلاٹ الاٹ کیا تاکہ جوگی وہاں بس سکیں۔

جمن جوگی نے کالے سانپ کی اقسام بتاتے ہوئے کہا کہ اس سانپ کی چار مختلف اقسام ہیں۔ پہلی قسم کو پدم سانپ کہا جاتا ہے، جس کا پیٹ اور پشت دونوں مکمل کالے ہوتے ہیں اور اس کے پھن پر چار مختلف کالے گہرے نشانات ہوتے ہیں۔

بقول جمن، یہ نشانات حضرت علی کے گھوڑے کے پاؤں کا نشان ہے اور یہ اس سانپ کی پہچان ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ کالے سانپ کی دوسری قسم کو گڈا سانپ یا تلیہر سانپ کہا جاتا ہے، جس کا پیٹ مکمل سفید اور پشت کالی ہوتی ہے۔ اسی طرح کالے سانپ کی تیسری قسم کو چوڑ سانپ کہا جاتا ہے۔ یہ سانپ بھی دوسرے کالے سانپوں کی طرح کالا ہوتا ہے مگر اس کی پہچان یہ ہے کہ اس کے سارے جسم پر سفید نشاںات ہوتے ہیں۔

بقول جمن کالے سانپ کی چوتھی قسم شیش سانپ ہے اور جوگی اس سانپ کو سانپوں کا شہنشاہ کہتے ہیں۔ یہ سانپ ملنا مشکل ہے۔

جمن نے بتایا کہ انڈے سے نکلتے ہی شیش سانپ کا بچہ شیش سانپ نہیں ہوتا بلکہ اسے مکمل شیش سانپ بننے میں کم سے کم ایک 100 سال لگ جاتے ہیں۔

سانپوں کے ساتھ زندگی گزارنے والے اس جوگی قبلے کی زیادہ تر آبادی ضلع عمرکوٹ کے مختلف گاؤں میں آباد ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جمن جوگی نے سانپوں کے من کے بارے میں بتایا کہ ’من ہر کالے سانپ میں نہیں ہوتی، یہ من صرف اور صرف شیش سانپ میں ہوتی ہے۔ پدم، تلہیر چوڑ سانپ میں جو من ہوتی ہے اسے من نہیں کہہ سکتے، اسے زہر مورا کہتے ہیں اور یہ زہر مورا ہر کالے سانپ میں ہوتا ہے۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’جب سردیوں کے چار مہینے سانپ زمین کے اندر ہوتے ہیں تو اس وقت وہ سردیوں سے بچنے کے لیے زمیں میں بہت نیچے تک جاتے ہیں اور اس دوران اپنے بلوں سے باہر نہیں نکلتے۔ انہی چار مہینوں کے دوران سانپ زمین کے اندر مٹی ہی کھاتے ہیں، یہ مٹی سانپ کی زبان سے اوپر تالو پر مسلسل چپکتی  رہتی ہے اور  اس چپکتی ہوئی مٹی پر اس کی زہر گوٹی سے زہر لگتا رہتا ہے۔ وہ مٹی اس زہر کو مسلسل جذب کرتی رہتی  ہے اور پھر آہستہ آہستہ وہ مٹی، مٹی نہیں رہتی بلکہ زہر کا ٹکڑا بں جاتی ہے۔ اسی زہر کے ٹکڑے کو پھر جوگی زہر مورا کہتے ہیں۔‘

جمن نے مزید بتایا کہ سانپ ساون کے مہینے میں آپس میں جنسی میلاپ کرتے ہیں، جس سے پہلے ہر سانپ الٹی کرتا ہے۔ اس الٹی میں وہ اس زہر مورے کو اپنے منہ سے باہر  پھینکتا ہے، جسے جوگی جنگل سے ڈھونڈ کر لاتے ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ زہر مورا حاصل کرنے کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ سانپ پکڑنے کے بعد جوگی دیکھتے ہیں کہ اگر اس سانپ کے منہ میں زہر مورا موجود ہے توجوگی  اسے منہ سے نکالنے کے لیے مختلف طریقوں سے سانپ کو الٹی کرواتے ہیں، جس کے لیے وہ سانپ کو جڑی بوٹی پڑکیال تین مرتبہ پلاتے ہیں۔ اس سے سانپ الٹی کرتا ہے اور زہر مورا باہر آ کر گرتا ہے۔

 یہ زہر مورا جوگی کے لیے بڑے ہی کام کی اور قیمتی چیز چیز ہوتی ہے۔ کسی کو اگر سانپ ڈسے تو یہ وہ زہر مورا اس ڈسنے والی جگہ پر رکھتے ہیں۔ وہ اس ڈسنے والے کا سارا زہر اپنے اندر چوس لیتا ہے۔ جوگی کہتے ہیں کہ کالے سانپ کے سوا کسی اور سانپ میں من یا زہر مورا نہیں ہوتا۔

سانپ پکڑنے کا طریقہ جوگی ہر کسی کو نہیں بتاتے، مگر جمن جوگی کہتے ہیں کہ سانپ پکڑنے کے لیے اس کی لکیر کا پیچھا کرنا پڑتا ہے۔ انہیں ریت پر موجود سانپ کی اس لکیر  سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ سانپ کس طرف گیا ہے، جب کہ جوگی کے سوا کوئی بھی عام شخص اس لکیر سے اندازہ نہیں لگا سکتا کہ یہ سانپ کی لکیر ہے یا کسی اور حشرات الارض کی؟

جمن جوگی کے مطابق جوگی پہلے سانپ کی لکیر پہچاںتے ہیں اور اس کے بعد وہ اس لکیر کو غور سے دیکھتے ہیں۔ اگر لکیر ریت کے ٹیلے پر ٹیڑی میڑھی ہے تو انہیں پتہ چل جاتا ہے کہ سانپ ریت کے ٹیلے پر اوپر گیا ہے اور اگر وہ لکیر ریت کے ٹیلے پر بالکل سیدھی ہے تو انہیں یہ پتہ چلتا ہے کہ سانپ ٹیلے سے نیچے کی طرف اترا ہے۔ اس کے علاوہ لکیر پر دُم کا نشان بھی انہیں لکیر سے سانپ کی سمت کی طرف رہنمائی کرنے میں مددگار ہوتا ہے۔

جوگی کانٹوں اور کوڑے کرکٹ سے بھی سانپ کے رخ کا اندازہ کر سکتے ہیں کہ کوڑا کس طرف سے ہٹا ہوا ہے۔ اسی طرح پتھریلی زمین پر سانپ کی لکیر سے اندازہ کرنا  مشکل ہوتا ہے مگر جوگی اس سے بھی اندزہ کر لیتے ہیں۔

جمن فقیر جوگی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’جوگی سانپ کو پکڑتے وقت اسے سر سے بڑی ہی کاریگری سے پکڑتے ہیں، اس لیے وہ انہیں کاٹ نہیں پاتا۔ پکڑنے کے بعد جوگی اس کی زہر گوٹی یا زہریلے دانت نکال دیتے ہیں۔ جوگیوں کا خیال ہے کہ کالے سانپ کے دانتوں میں باریک سوراخ ہوتے ہیں۔ اس کا زہر ان سوراخوں سے ڈسنے والے کے جسم میں جاتا ہے۔

’سانپ کا زہر سانپ کی زبان کے قریب دونوں اطراف میں ہوتا ہے، اس زہر والے حصے کو جوگی زہر گوٹی کہتے ہیں۔ اس زہر گوٹی تک زہر جانے کے لیے ایک ناڑ سے گزرتا ہے، جسے جوگی اپنی زبان میں ناڑ گوٹی کہتے ہیں۔‘

جوگی کہتے ہیں کہ جب کوئی بھی کالا سانپ ڈسنے کے بعد تھوڑا سا چلتا ہے تو یہ  ناڑ گوٹی پھر زہر سے بھر جاتی ہے، اس لیے سانپ کسی ایک کو ڈسنے کے بعد اسی وقت دوسرے کو بھی ڈس سکتا ہے، اس لیے سانپ پکڑنے کے بعد جوگی سب سے پہلے اس سانپ کی ناڑ گوٹی اور زہر گوٹی دونوں نکال دیتے ہیں، وہ دونوں نکالنے کے بعد سانپ  کسی کو ڈسنے کے قابل نہیں رہتا۔

جوگی کالے سانپ کو پکڑنے کے بعد اسے اپنے گھر کا اہم حصہ سمجھتے ہیں۔ وہ اس سانپ کو رات کے وقت اپنے ساتھ سلاتے ہیں۔ اسے بکرے کی ہڈی سے دودھ پلاتے ہیں، گوشت کہلاتے ہیں اور مٹی بھی چٹواتے ہیں، جسے ملتانی مٹی بھی کہا جاتا ہے۔

کالے سانپوں کے علاوہ سانپوں کی اور بھی بہت سی اقسام ہیں، جن میں سے ایک کو جوگی ’لنڈی بلا‘ کہتے ہیں۔ دوسری قسم  کو ’پیئن بلا‘ کہتے ہیں ۔ جسے تھر میں عام طور پر بچھڑی (بری) کہا جاتا ہے، مگر اسے کہیں کہیں ’فوکنی بلا‘ بھی کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ گھوڑیال، بھوگھی اور بہت ساری اقسام ہوتی ہیں۔

ان جوگیوں میں ایک رسم ہے کہ جب تک جوان لڑکا سانپ پکڑنا نہیں سیکھ لیتا تب تک وہ اس کی شادی نہیں کرواتے۔ اسی رسم کی وجہ سے ہر جوگی اپنے بچے کو سب سے پہلے سانپ پکڑنا سکھاتا ہے۔ ویسے تو جوگی اپنی بیٹیوں کو جہیز میں شکار کرنے والا کتا، گیدڑ سنگھی اور بہت کچھ دیتے ہیں مگر وہ انہیں کالا سانپ دینا کبھی نہیں بھولتے۔

اب جوگیوں کے کچھ لڑکے یونیورسٹیوں میں بھی پڑھ رہے ہیں، جنہیں سانپ پکڑنا نہیں آتا، مگر اب بھی جوگیوں کی ایک بڑی اکثریت سانپ پکڑنے کا کام ہی کرتی ہے۔ 

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میگزین