’سوری‘ کہنا آسان ہے۔ بس یہ ایک لفظ ہے جس کے دو ارکان کلام ہیں اور آپ اسے چھینک مارنے سے بھی جلدی کہہ سکتے ہیں، لیکن یہ دل سے کہنا بے حد مشکل ہے۔
زبان سیکھنے کے پلیٹ فارم بیبل کی ایک تحقیق کے مطابق برطانوی عوام ’سوری‘ کا لفظ 15 مختلف طریقوں سے استعمال کرتے ہیں جن میں سے صرف ایک طریقے کا مطلب حقیقی ندامت ہوتا ہے۔
بظاہر ہم اتنی بار ’سوری‘ بولتے ہیں کہ اب ہمیں اس کا اصل مفہوم یاد ہی نہیں رہا۔ یہاں کچھ ایسے طریقے درج ہیں جن میں ہم ’سوری‘ غلط استعمال کرتے ہیں۔
کسی کو راستے سے ہٹنے کا کہنے کے لیے کہنا، کسی سے اپنی بات دہرانے کا کہنے کے لیے کہنا، ہمدردی جتانے کے لیے، بے یقینی کے اظہار کے لیے، اختلاف کرنے کے لیے، طنز کرنے کے لیے اور اگر آپ برطانوی شہری ہیں تو شاید ہر جملے کے آغاز سے پہلے۔
بیبل سے وابستہ ثقافتی اور لسانی ماہر نوئل وولف وضاحت کرتے ہیں کہ ’برطانوی انگریزی میں لفظ ’سوری‘ اپنے اصل مقصد یعنی ندامت کے اظہار سے بہت آگے نکل چکا ہے۔‘
ان کی تحقیق کے مطابق ہم روزانہ اوسطاً نو مرتبہ ’سوری‘ بولتے ہیں۔ ’اب یہ ایک سماجی سہولت اور روزمرہ کے رابطوں میں مدد کا ذریعہ بن چکا ہے۔‘
یہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ برطانوی لوگ روایتی شائستگی کے ذریعے تنازعات سے بچنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
ہم تحمل سے کام لیتے ہیں اور معاملات کو جاری رکھتے ہیں، جو برطانوی مزاج کا خاصہ ہے۔
وولف کے بقول ’جس معاشرے میں براہ راست بات کرنا بدتہذیبی سمجھی جائے اور ذاتی و جذباتی حدود کا خیال رکھا جائے، وہاں ’سوری‘ معمولی کشیدگی کو بھی دور کر سکتا ہے۔‘
مسئلہ یہ ہے کہ اس لفظ کے بےتحاشا استعمال کی وجہ سے اب اس کا حقیقی مطلب ختم ہوتا جا رہا ہے اور ہم اس بات سے بے خبر ہو چکے ہیں کہ حقیقی ندامت کے لیے صحیح معنوں میں معذرت کیسے کی جائے۔
اگر ہم اسے بے تحاشا بولیں گے تو کیا یہ لفظ کوئی معنی رکھتا بھی ہو گا؟ اور آخر کیوں ہم میں سے اکثر لوگ کھوکھلے جملے بول کر معذرت کرتے ہیں؟
مثال کے طور پر ’اگر تمہیں برا لگا تو سوری‘ سے زیادہ ناگوار کوئی جملہ شاید ہی ہو۔
یہی سوالات ہیں جنہیں مارجری اِنگل اور سوزن میک کارتھی نے اپنی کتاب ’گیٹنگ ٹو سوری: دی آرٹ آف اپالوجی ایٹ ورک اینڈ ایٹ ہوم‘ میں اٹھایا۔
اس میں بتایا گیا ہے کہ ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی میں ہم اکثر اتنی خراب معذرت کیوں کرتے ہیں اور یہ عادت کیسے ہمارے دوسروں اور خود سے تعلقات کو بگاڑتی ہے۔
ان کا بنیادی نکتہ معروف شخصیات کی مانگی گئی معافی کے بڑھتے ہوئے رجحان سے جڑا ہوا ہے۔
یعنی سوشل میڈیا یا ترجمانوں کے ذریعے دیے گئے ایسے بیانات جن کا مقصد صرف مشہور شخصیت کی ساکھ کو بچانا ہو اور کبھی کبھی تو سرے سے الزامات ہی کو مسترد کرنا ہو۔
ہم عوامی سطح پر بےشمار مرتبہ یہ ہوتا دیکھ چکے ہیں۔ ڈریو بیری مور اور لینا ڈنہم سے لے کر ایشٹن کچر اور میلا کونس تک کئی شخصیات ایسے بیانات جاری کر چکی ہیں۔
اس کے علاوہ برطانیہ میں سیاست دانوں کی نہ ختم ہونے والی فہرست ہے جنہوں نے ’سوری‘ کہنے میں بدترین مثالیں قائم کیں۔
اکثر یہ معافیاں لمبی اور ماہرین کی تیار کردہ تعلقات عامہ حکمت عملی ہوتی ہیں۔ کبھی کبھار تو یہ اس قدر غیر مؤثر ہوتی ہیں کہ مذاق بن جاتی ہیں۔
انگل کے مطابق ’ان معافیوں میں اصل توجہ معافی مانگنے والے پر ہوتی ہے نہ کہ اس شخص پر جس سے معافی مانگی جا رہی ہے۔
’بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ وہ واضح طور پر اپنی غلطی تسلیم کریں جس سے معافی بناوٹی اور ذمہ داری سے بچنے کی کوشش معلوم ہوتی ہے۔‘
یہ رویہ ہمیں بھی ایسی معافیوں کا عادی بنا رہا ہے جہاں الزام دوسروں پر ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
انگل کے مطابق ’ہمارا دماغ ہمیں خود کو ہیرو کے طور پر دیکھنے پر مجبور کرتا ہے۔ جب ہم سے غلطی ہو جاتی ہے تو ہمیں یہ بات بےسکون کر دیتی ہے کہ ’میں تو اچھا انسان ہوں لیکن میں نے برا کام کیا۔‘
اس تضاد کو ختم کرنے کے لیے ہم اپنی غلطی کو معمولی قرار دیتے ہیں اور دوسرے شخص کے ردعمل کو مبالغہ سمجھتے ہیں۔‘
اس قسم کی بودی معافیوں سے ’اگر تمہیں برا لگا ہو تو‘ جیسے جملے وجود میں آئے ہیں۔ انگل کہتی ہیں کہ ہم مبہم زبان اور غیر واضح انداز اختیار کر کے ذمہ داری سے بچنا چاہتے ہیں۔
بعض لوگوں کے لیے معافی مانگنا اس لیے بھی مشکل ہوتا ہے کہ وہ جس ماحول میں پلے بڑھے ہوتے ہیں وہاں غلطی پر سخت سزا یا جذبات کے اظہار کو غیر محفوظ سمجھا جاتا ہے۔
ماہر نفسیات ڈاکٹر جینا ویاس لی کے بقول ’معافی مانگنے سے ہماری شناخت کو خطرہ محسوس ہوتا ہے اور احساس ندامت یا خوف ہمیں دفاعی رویہ اپنانے پر مجبور کرتا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
طاقت کا توازن اور سیاق و سباق بھی صورت حال کو مزید پیچیدہ بنا سکتا ہے ہیں۔ باس یا ساتھی کارکن سے معافی مانگنے کا طریقہ والدین یا دوستوں سے معافی مانگنے کے طریقے سے بالکل الگ ہوتا ہے۔
ویاس لی کے مطابق ’اس پر برطانوی تہذیب کی مخصوص احتیاط پسندی کا اضافہ ہو تو غلط معافی مانگنا حیران کن نہیں۔‘
کمزور معذرت قبول کرنا انتہائی مایوس کن ہو سکتا ہے۔ یہ نہ صرف اس مسئلے کو ہلکا کردیتی ہے جس کی وجہ سے معذرت کی گئی تھی، بلکہ اس شخص میں تنہائی کا احساس بھی پیدا کرتی ہے جو تکلیف میں ہے۔
مثال کے طور پر دوسرا فریق سرے سے یہ سمجھ ہی نہیں پا رہا کہ اسے تکلیف کیوں ہوئی یا وہ کیوں دکھی ہے۔
ایک مؤثر اور سچی معافی کیسی ہونی چاہیے؟ حالیہ تحقیق کے مطابق طویل اور محتاط الفاظ میں کی جانے والی معذرت زیادہ مؤثر ہوتی ہے کیوں کہ اس سے سننے والے کو معافی مانگنے والے کی سنجیدگی کا احساس ہوتا ہے۔
ڈاکٹر ویاس لی کہتی ہیں کہ ’مؤثر معافی میں تین باتیں شامل ہوتی ہیں یعنی غلط رویے کی وضاحت، اس کے اثر کو تسلیم کرنا اور رویہ بہتر کرنے کا عزم۔
’مثال کے طور پر میں نے سخت لہجے میں بات کی۔ مجھے احساس ہے کہ یہ تکلیف دہ تھی۔ اگلی بار احتیاط کروں گا۔‘
انسانی تعلقات کی ماہر جیما لوگن کا کہنا ہے کہ معافی کو ایک لمحے تک محدود نہیں ہونا چاہیے۔ ’چند دن بعد اس شخص کا حال پوچھنا اور کہنا کہ ’مجھے اب بھی ’سوری‘ کہنا آسان ہے، آپ کی سنجیدگی ظاہر کرتا ہے۔
حقیقت یہی ہے کہ بالغ اور باشعور انسان ہونے کی حیثیت سے کمزور معافی کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ لیکن اگر آپ ماضی میں ایسا کر چکے ہیں تو کم از کم اب آپ جانتے ہیں کہ معذرت کس طرح نہیں کرنی چاہیے۔
© The Independent