بالی وڈ نے ماضی قریب میں جتنی بھی جاسوسی تھرلر فلمیں بنائیں وہ کم و بیش ہالی وڈ کا سستا ورژن تھیں۔ ویژوئل ایفیکٹس اور ایکشن سے بھرپور مگر چلتی پھرتی، جیتی جاگتی زندگی سے محروم۔
’پٹھان،‘ ’مشن مجنوں‘ اور ’خفیہ‘ کی نسبت دھرندھر زیادہ پرتجسس، زیادہ جارحانہ، زیادہ پرتشدد، اور اپنے ناظرین کو چونکانے میں زیادہ کامیاب رہی۔ اس اعتبار سے سپائی تھرلر کیٹیگری میں یہ بالی وڈ کی نئی جست ہے۔
ریلیز ہونے سے پہلے دھرندھر نے اپنی شدت اور خونریز مناظر کی بدولت غیر روایتی انداز میں میڈیا کی توجہ بٹوری۔ فلم میں تشدد کو انتہا تک پہنچایا گیا ہے، پنکھوں سے لٹکی ہوئی لاشوں سے لے کر جسم پر تاریں چبھونے تک کے مناظر سے دھرندھر نے رام گوپال ورما کی ’رکتہ چرترا‘ کے قائم کردہ بے رحمی کے معیار کو توڑا اور ایک نیا معیار قائم کیا۔
لیکن یہ فلم محض تشدد کے سینیمائی پیشکش نہیں بلکہ بالی وڈ کے موجودہ رجحانات کے نمائندہ بھی ہے۔ بالی وڈ کس طرح سے وطن پرستی، پاکستان مخالفت، مردانگی اور ہیروزم کو پیش کرتا ہے، یہ فلم کامیابی سے اس باریک لکیر پر سفر کرتی ہے جو سینیما کے ہنر اور پروپیگنڈے کے درمیان ہوتا ہے۔ اس لکیر پر سفر کرتے ہوئے شاید ہی بالی وڈ فلم کے اختتام تک اتنا غیر متزلزل رہا ہو۔
Akshaye Khanna - Peak Aura #Dhurandharpic.twitter.com/GheGhVytlE
— The Cinéprism (@TheCineprism) December 7, 2025
فلم کا آغاز 1999 کی ایک طیارہ ہائی جیکنگ کی اصل نیوز فوٹیج سے ہوتا ہے۔ یہاں سے یہ انڈیا اور پاکستان کی تاریخ کے کچھ تاریک ترین ابواب پر کی جھلک دکھاتی کہانی آگے بڑھتی ہے۔ 2001 میں انڈیا کی پارلیمنٹ پر حملہ، بمبئی کی ہولناک قتل و غارت، اور اس کے بعد کے کئی خفیہ معرکے۔ فلم میں حقیقی آڈیو کلپس، اصل فوٹیجز اور دوبارہ تخلیق کردہ مواد سے ناظرین کے جذبات پوری طرح کہانی کی گرفت میں چلے جاتے ہیں۔ اس کے بعد آپ کے لیے بالی وڈ کی تاریخ کی طویل ترین فلموں میں سے ایک کو مکمل دیکھے بغیر اٹھنا ناممکن ہو جاتا ہے۔
فلم کی کہانی انٹیلی جنس چیف اجے سنائل کے گرد گھومتی ہے۔ سنائل پاکستان کو ’ان کے اپنے گھر میں‘ سبق سکھانا چاہتے ہیں۔ ان کا منصوبہ سادہ ہے۔ ایک ایسا آدمی بھیجا جائے جو لیاری سے چلنے والے مجرمانہ اور دہشت گرد نیٹ ورک کو توڑ سکے۔ وہ آدمی ہے حمزہ، جس کا کردار رنویر سنگھ نے نبھایا۔
پاکستان میں داخل ہوتی ہی فلم کی کہانی جاسوسی تھرلر سے گینگسٹر ڈراما میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ حمزہ، رحمان ڈکیت کی زیرزمین دنیا میں جا پہنچتا ہے جسے تباہ کرنا اس کی ذمہ داری ہے۔
فلم کا سب سے دلچسپ حصہ تین کرداروں کے تعاقب، دھوکہ دہی، اور گھات لگانے کی واردات ہے۔ اگر آپ نے رحمان ڈکیٹ کی حقیقی زندگی اور چوہدری اسلم کے ہاتھوں ان کے مبینہ پولیس مقابلے کا ذکر سن رکھا ہے تو یہ مناظر فلمی کہانی کے مطابق انہیں حقیقی واقعات کا عکس ہیں۔ رحمان پہلی گرفتاری کے بعد زخمی ہوئے تھے اور فرار کی کوششوں کے دوران ان کی ٹانگ ٹوٹ گئی تھی۔
گرفتاری کے بعد ایک بڑی سفارش کی وجہ سے چوہدری اسلم نے انہیں پولیس مقابلے میں پار لگانے کی بجائے مجبوراً گرفتاری پر ہی اکتفا کیا تھا۔ بعد میں رحمان نہ صرف پولیس کی حراست سے بھاگ نکلے بلکہ قتل و غارت اور بھتے کے پرانے کام کو نئی بلندیوں تک لے گئے۔
آخر 2009 میں دوبارہ چوہدری اسلم کے ہاتھوں مبینہ طور پر پولیس مقابلے میں مارے گئے۔ انہیں گرفتار کرنے کے لیے چوہدری اسلم نے بھی گھات لگائی تھی۔
فلم کی کہانی میں کسی غیر معمولی ہدایت کار جیسی غیر جانبداری یا انسانی زندگی کو خیر و شر کے بنے بنائے سانچوں میں نہ دیکھنے کی صلاحیت مفقود ہے۔
Dhurandhar shows Indian intelligence cadre in very poor light.
Not a single intel information is passed systematically in course of the story.
Lot of loopholes in story,why doesn't Hamza report to Sanyal directly if he is his asset?
Akshaye,Arjun,Sanjay & Rakesh Bedi save it ! pic.twitter.com/2PImd4KeKu
— Sushrut Sawant (@drsushrutz) December 9, 2025
سیاسی غصے اور شدید جھنجھلاہٹ سے انڈین ناظرین ممکنہ طور پر زیادہ شدت سے فلم کی کہانی کو محسوس کرتے ہیں۔ بہرحال یہ کامیاب بزنس سینس ہے جس نے فلم کی مقبولیت میں اہم کردار ادا کیا۔
ایک منظر میں، نائن الیون حملہ آوروں کی گفتگو کی ٹرانسکرپشن خونی رنگ کی سکرین پر چلتی ہے۔ بار بار ’کافر‘ کی گونج سنائی دیتی ہے۔ دوسرے منظر میں، پاکستان کے اعلیٰ حکام معصوم لوگوں کے قتل کی خوشی مناتے ہیں اور مذہبی نعرے لگاتے ہیں۔
اس طرح دھرندھر پیچیدہ جغرافیائی تنازعات کو خیر و شر کے سادہ خاکوں میں پیش کرتی ہے۔ فلم کا ہیرو رنویر سنگھ ایک مضبوط اور پرجوش ہے، لیکن ان کا کردار اکثر ایک مشین محسوس ہوتا ہے جو تشدد کے لیے بنی ہے جب کہ اکشے کھنہ، ہر منظر میں بغیر کوشش چھائے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔
فلم میں ہمیشہ ہیرو اور ہیروئن زیر بحث آتے ہیں۔ انہی کی تصاویر پوسٹرز پر ہوتی ہیں، انہی کے نام سے ٹکٹ بکتے ہیں۔ انہی کے انداز کو نوجوان تصور کی آنکھ سے دیکھتے اور اپنانے کی کوشش کرتے ہیں۔
طویل عرصے بعد شاید ایسا ہو رہا کہ ساری توجہ ولن لے گیا۔ کسی نے سوشل میڈیا پر ٹھیک سوال اٹھایا ہے کہ رحمان ڈکیت کو گلیمرائز کرنے کے لیے بالی وڈ نے کروڑوں روپے لگا دیے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جب رحمان ڈکیت سیاہ لباس پہنے انٹری مارتے ہیں، اسی فریم میں فلم کا ہیرو بھی ہوتا ہے، مجال ہے تب کسی اور پر نظر ٹھہرے۔
اکشے کھنہ نے رحمان ڈکیٹ کو محض ظاہری بہادری تک محدود نہیں رکھا بلکہ ان کی پیچیدہ شخصیت کو پوری طرح جذب کیا۔ رحمان ڈکیٹ کی حکمت عملی اور بے خوف رویہ کیسا ہوتا تھا، وہ کس پراعتماد انداز سے مخالفین پر حملہ کرتے اور لاشیں گراتے رہے۔ اکشے کی جسمانی حرکات، تاثرات اور بولنے کے انداز میں ایک ایسا توازن نظر آیا جو کردار کی شدت کو بہت آسانی سے عیاں کرتا ہے۔
اکشے کھنہ کے روپ میں رحمان ڈکیٹ کا دلیرانہ عزم، کردار کو صرف ایک سپر ہیرو یا ولن کی سطح پر نہیں رکھتا بلکہ اسے انسانی اور قابل شناخت چہرہ بناتا ہے۔ ایک ایسا شخص جن کا جنازہ لیاری کی تاریخ کے بڑے جنازوں میں سے ایک تھا، اگر وہ دیکھنے والوں سے جذباتی سطح پر نہ جڑ سکتا تو یہ فلم کی سب سے بڑی ناکامی ہوتی۔
فلم کے ہدایت کار آدتیہ دھر نے روایت پسندانہ جاسوسی دائرے کو توڑنے کی کامیاب کوشش کی اور کہانی کو گینگسٹر ساگا کے انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی۔ سیاسی اعتبار سے پروپیگنڈا ہونے کے باوجود یہ شاندار تجربہ ہے۔