دنیا میں سانپ کی سب سے بڑی قسم ایمازون جنگل سے دریافت

جنوبی امریکہ کے دریاؤں اور آبی علاقوں میں پائے جانے والے یہ ایناکونڈا اپنی برق جیسی رفتار اور شکار کے گرد لپٹ کر اسے مارنے کی وجہ سے مشہور ہیں۔

سائنس دانوں نے ایمازون کے دریاؤں میں گھومتے ہوئے نئی نسل سے تعلق رکھنے والے متعدد ایناکونڈا کو ’گہرے پانی میں چھپے ہوئے، شکار کے انتظار میں‘ ریکارڈ کیا (جیسس ریواس)

سائنس دانوں نے ایمازون جنگل میں دیوہیکل ایناکونڈا کی ایک ایسی قسم دریافت کی ہے جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ یہ 7.5 میٹر تک لمبا اور 500 کلو گرام کے قریب وزنی ہو سکتا ہے۔ ان خصوصیات کے باعث یہ دنیا کا سب سے بڑا اور وزنی سانپ بن گیا ہے۔

اب تک، ایناکونڈا کی چار اقسام معلوم تھیں، جن میں سے سب سے بڑی – سبز ایناکونڈا – جنوبی امریکہ کے ٹراپیکل حصوں جیسا کہ ایمازون، اورینوکو، اور ایسکیبو دریاؤں کی گزگاہوں سمیت کچھ چھوٹے آبی ذخائر میں بھی رہتی تھی۔

جنوبی امریکہ کے دریاؤں اور آبی علاقوں میں پائے جانے والے یہ ایناکونڈا اپنی برق جیسی رفتار اور شکار کے گرد لپٹ کر اسے مارنے کی وجہ سے مشہور ہیں۔

دہائیوں پر محیط ایک نئی تحقیق میں اب یہ بات سامنے آئی ہے کہ سبز ایناکونڈا جینیاتی طور پر دو مختلف اقسام کے ہیں۔

مقامی اور ’واورانی‘ لوگوں کے ساتھ کام کرنے والے محققین نے ایکواڈور کے ایمازون کے بیہوایری واورانی علاقے کے بامینو خطے میں نئے نام کے شمالی سبز ایناکونڈا (یونیکٹس اکیما) کے متعدد نمونوں کو پکڑا اور ان کا مطالعہ کیا۔

یہ قسم جیوگرافک کی ڈزنی پلس سیریز ’پول ٹو پول ود ول سمتھ‘ کی فلم بندی کے دوران ملی تھی۔

سائنس دانوں نے ایمازون کے دریاؤں میں گھومتے ہوئے نئی نسل سے تعلق رکھنے والے متعدد ایناکونڈا کو ’گہرے پانی میں چھپے ہوئے، شکار کے انتظار میں‘ ریکارڈ کیا۔

یونیورسٹی آف کوئنز لینڈ سے تعلق رکھنے والے اس تحقیق کے شریک مصنف برائن فرائی نے ایک بیان میں کہا، ’اس مخلوق کا سائز ناقابل یقین تھا اور ہمارا سامنا جس مادہ ایناکونڈا سے ہوا اس کی لمبائی حیرت انگیز طور پر 6.3 میٹر تھی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ڈاکٹر فرائی نے کہا، ’واورانی لوگوں کے پاس اس علاقے میں 7.5 میٹر سے زیادہ لمبے اور تقریبا 500 کلوگرام وزن کے دیگر ایناکونڈا کی افسانوی کہانیاں ہیں۔‘

نئی قسم، جس کے بارے میں معلومات سائنسی جریدے ’ڈائیورسٹی‘ میں شائع ہوئیں، تقریبا ایک کروڑ سال قبل پائے جانے والے سدرن گرین ایناکونڈا سے الگ تھی جو جینیاتی طور پر اس سے 5.5 فیصد مختلف تھی۔

اس تناظر میں دیکھا جائے تو انسان چمپنزی سے صرف دو فیصد مختلف ہیں۔

محققین کے مطابق، یہ دریافت ایناکونڈا کے تحفظ کے لیے اہم ہے، جو زبردست شکاری ہیں اور اپنے ماحولیاتی نظام میں توازن برقرار رکھنے کے لیے اہم ہیں۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ صحت مند ایناکونڈا آبادی کا مطلب ہے کہ ان کے ماحولیاتی نظام میں وافر غذائی وسائل اور صاف پانی ہے، جبکہ سانپ کی تعداد میں کمی ماحولیاتی بحران کی نشاندہ ہو سکتی ہے۔

محققین نے ’دی کنورسیشن: میں لکھا، ’اس لیے ایناکونڈا کی اقسام جاننا اور ان کی تعداد کی نگرانی بہت ضروری ہے۔‘

صنعتی پیمانے پر زراعت، جنگلات کی آگ، خشک سالی، آب و ہوا کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ تیل نکالنے کی سرگرمیوں سے پھیلنے والی آلودگی کی وجہ سے ایناکونڈا اور ان کی رہنے کی جگہوں کو گاہوں کے لیے خطرہ بڑھ رہا ہے۔

ڈاکٹر فرائی کا کہنا تھا، ’اس بارے میں تحقیق کی ضرورت ہے کہ تیل کے اخراج سے نکلنے والے پیٹرو کیمیکلز ان نایاب سانپوں کی تولیدی حیاتیات کو کس طرح متاثر کر رہے ہیں۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات