سائنس دانوں کو ایچ آئی وی کے علاج کی تلاش میں بڑی کامیابی اس وقت ملی جب ایک تحقیق کے بعد ایک پیش رفت ہوئی جسے ’پہلے ناممکن سمجھا‘ جاتا تھا۔
ایچ آئی وی خود کو خون کے سفید خلیوں میں ’چھپا‘ سکتا ہے جس کے باعث نہ تو مدافعتی نظام اور نہ ہی دوائیں اسے ڈھونڈ کر ختم کر پاتی ہیں۔
تاہم میلبرن کے پیٹر ڈوہرٹی انسٹیٹیوٹ فار انفیکشن اینڈ امیونٹی کے محققین نے اب ایک طریقہ دریافت کیا ہے جس سے اس وائرس کو چند انسانی خلیوں سے باہر نکالا جا سکتا ہے جن میں وہ چھپا ہوا ہوتا ہے۔
یہ دریافت ممکنہ طور پر مدافعتی نظام یا دوا کو وائرس کی نشاندہی اور اسے مارنے کا موقع دے سکتی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ محققین علاج کے ایک قدم مزید قریب پہنچ گئے ہیں۔
ڈوہرٹی انسٹیٹیوٹ کی تحقیقاتی فیلو اور نیچر کمیونیکیشنز میں شائع ہونے والی تحقیق کی شریک مصنفہ ڈاکٹر پاؤلا سیوال نے دی گارڈین کو بتایا کہ خلیوں تک جینیاتی پیغام یعنی ایم آر این اے پہنچانا پہلے ناممکن سمجھا جاتا تھا کیونکہ خلیے پیغام کو لے جانے والے ایل این پی (لپڈ نینو پارٹیکلز) کو قبول نہیں کرتے تھے۔
لیکن ٹیم نے پھر ایک نئی قسم کے لپڈ نینو پارٹیکلز تیار کیے جس سے ایم آر این اے ٹیکنالوجی کو خون کے خلیوں تک پہنچانا ممکن ہو گیا۔ یہ ایم آر این اے پھر اپنے پیغام میں خلیوں کو وائرس ظاہر کرنے کی ہدایت دیتا ہے۔
ڈاکٹر پاؤلا نے اخبار کو مزید بتایا کہ ابتدا میں ٹیم کو لگا کہ یہ نتائج بہت اچھے ہیں لیکن شاید سچ نہ ہوں اور یہ کہ وہ امید رکھتی ہیں کہ نیا نینو پارٹیکل ڈیزائن ایچ آئی وی کے علاج کا ایک نیا راستہ بن سکتا ہے۔‘
انہوں نے کہا: ’ہم نے اسے دوبارہ لیبارٹری بھیجا تاکہ وہ تجربہ دہرائے اور اگلے ہفتے اتنے ہی اچھے نتائج ہمارے منتظر تھے۔ تو ہمیں یقین کرنا ہی پڑا اور یقیناً اس کے بعد ہم نے اسے بہت مرتبہ دہرایا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’ہم سب حیران رہ گئے کہ یہ کتنا زبردست فرق تھا۔ پہلے یہ کام نہیں کر رہا تھا اور پھر اچانک یہ کام کرنے لگا اور ہم سب بس ششدر رہ گئے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’بائیومیڈیسن کے میدان میں بہت سی چیزیں آخرکار کلینک تک نہیں پہنچ پاتیں اور یہ ایک تلخ حقیقت ہے، میں حقیقت سے بہتر تصویر پیش نہیں کرنا چاہتی۔ لیکن اگر خاص طور پر ایچ آئی وی کے علاج کے شعبے کی بات کریں تو ہم نے اس سے بہتر کبھی کچھ نہیں دیکھا کہ ہم وائرس کو اس قدر موثر طریقے سے کیسے ڈھونڈ پا رہے ہیں۔‘
ڈاکٹر پاؤلا کے بقول: ’تو اس لحاظ سے ہم پرامید ہیں کہ ہم جانوروں میں بھی ایسا ہی ردعمل دیکھ سکیں گے اور بالآخر انسانوں پر بھی یہ طریقہ آزما سکیں گے۔‘
یہ تحقیق ان مریضوں کے خلیوں پر کی گئی جو ایچ آئی وی سے متاثر ہیں۔ اب مزید تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ دیکھا جا سکے کہ وائرس کو ظاہر کرنے کے بعد کیا مدافعتی نظام واقعی اسے ختم کر پائے گا یا نہیں۔
ممکنہ طور پر اس نئی دریافت کو انسانی تجربات میں استعمال کرنے سے پہلے کئی سالوں تک مزید حفاظتی جانچ کی ضرورت ہو گی۔
© The Independent