ایچ آئی وی مریض جو اپنے جیسے دوسرے مریضوں کی مدد کرتا ہے

احمد اس وقت پنجاب ایڈز کنٹرول پروگرام کے واحد ایچ آئی وی پازیٹیو ورکر ہیں۔ انہیں یہ نوکری اپنی بیماری کی وجہ سے پہلی نوکری چھوڑنے کے بعد ملی۔

’میں ساری رات اپنی رپورٹ کا انتظار کرتا رہا۔ ہر تھوڑی دیر بعد آن لائن چیک کرتا۔ جب رپورٹ آئی اور میرا رزلٹ مثبت تھا تو مجھے لگا کہ سب ختم ہو گیا ہے۔ میں نے اپنی زندگی کو وہیں روک دیا۔ پڑھائی چھوڑ دی، خود کو کمرے میں بند کر لیا، بات چیت کرنا چھوڑ دی یہاں تک کہ دو مرتبہ خودسوزی کی بھی کوشش کی۔‘

یہ کہانی ہے ایک نوجوان احمد (فرضی نام) کی۔ ’چونکہ میں ایچ آئی وی پازیٹیو ہوں اور فرضی نام بتانے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں اب بھی اس بیماری کو ایک ٹیبو سمجھا جاتا ہے۔ اسے قبول نہیں کیا جاتا اور میں اپنی شناخت نہیں بتانا چاہتا۔‘

احمد اس وقت پنجاب ایڈز کنٹرول پروگرام کے واحد ایچ آئی وی پازیٹیو ورکر ہیں۔ انہیں یہ نوکری اپنی بیماری کی وجہ سے پہلی نوکری چھوڑنے کے بعد ملی۔

احمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’میں پرائیوٹ سیکٹر میں کام کرتا تھا وہاں جب تک میں نے اپنے بارے میں نہیں بتایا تھا تب تک میری چیزیں نارمل تھیں۔ وہاں میرا ایک ساتھی تھا جسے میں نے اپنا جان کراپنی بیماری کے بارے میں بتایا۔ سوچا اسے بھی اس حوالے سے آگاہی دیتا ہوں۔ اس نے اس وقت تو مجھے دلاسا دیا لیکن کچھ ہی دن کے بعد میری شکایت لگا دی۔‘

احمد نے بتایا کہ شکایت لگنے کے بعد جب وہ دفتر آئے تو وہ کمرہ جہاں وہ روز بیٹھا کرتے تھے، وہاں سے ان کی کرسی اٹھا لی گئی تھی۔

احمد نے بات جاری رکھتے ہوئے بتایا: ’میرے ساتھی نے آ کر مجھ سے کہا کہ مجھے ڈائریکٹر نے کمرے میں بلایا ہے۔ میں وہاں گیا تو انہوں نے مجھ سے

میرے مرض کے بارے میں پوچھا۔ اس وقت تو میں حیران ہو گیا کہ انہیں کیسے معلوم ہوا۔ میں نے پہلے انکار کیا لیکن پھر انہوں نے بتایا کہ ایک ساتھ کام کرنے والے نے انہیں بتایا ہے۔‘

احمد کا کہنا ہے کہ انہیں موجودہ برانچ چھوڑ کر کسی دوسری برانچ میں منتقل کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ ان کے افسر نے انہیں کہا کہ یہ برانچ بہت بڑی ہے اور وہ انہیں یہاں نہیں رکھ سکتے البتہ تبادلہ کر سکتے ہیں۔

’یہ سن کر میرا ان سے یہی سوال تھا کہ جہاں آپ مجھے بھیجیں گے وہاں کے لوگوں کو مجھ سے مسئلہ نہیں ہوسکتا؟ انہوں نے کہا نہیں آپ کو ٹرانسفر ہونا پڑے گا۔ میں نے ان سے صرف پانچ منٹ سوچنے کے لیے مانگے اور پانچ منٹ کے بعد میں نے اپنا استعفیٰ دے دیا۔‘

اس نوکری کو چھوڑنے کے بعد احمد نے فیصلہ کیا کہ وہ کسی نہ کسی طریقے سے ان لوگوں کے لیے کام کریں گے جو ان کی طرح اس بیماری سے لڑ رہے ہیں اور زندگی سے مایوس ہو چکے ہیں۔

احمد بولے: ’میں نے سوچا میں ان کے لیے ایک امید کی کرن بنتا ہوں۔ اسی لیے میں نے پنجاب ایڈز کنٹرول پروگرام کے پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کئیرکی ویب سائٹ مسلسل دیکھنا شروع کی کہ مجھے اس پر کوئی نوکری مل جائے۔‘

احمد کہتے ہیں کہ اب اس پر بھی ایک سوالیہ نشان تھا کہ چونکہ وہ ایچ آئی وی پازیٹیو تھے تو انہیں یہاں نوکری ملے گی بھی کہ نہیں۔

احمد نے بتایا: ’میری کوشش تھی اور میں نے نوکری کے لیے درخواست دے دی اور میں شارٹ لسٹ ہو گیا۔ اب مجھے اس بات کی فکر تھی کہ میں ان کو کیسے بتاؤں کہ میں ایچ آئی وی پازیٹیو ہوں جبکہ میں انہیں کے پاس بطور ایچ آئی وی پازیٹیو مریض رجسٹرڈ بھی ہوں اور اگر انہیں پتہ چلا تو یہ مجھے نکال دیں گے۔‘

احمد نے بتایا کہ ان سب وسوسوں کے باوجود انہوں نے پورے اعتماد کے ساتھ جا کر انٹرویو دیا۔ اور ان کا انٹرویو لینے کے لیے ادارے کے بڑے افسران موجود تھے۔

’انٹرویو کے آخر میں جب انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ میرا یہاں آںے کا مقصد کیا ہے تب میں نے انہیں بتایا کہ میں خود بھی اس بیماری سے دوچار ہوں۔ یہاں آنا چاہتا ہوں تاکہ اپنے جیسوں کی مدد کر سکوں۔ اس بات پر انٹرویو لینے والا سارا پینل حیران ہو گیا کہ میں نے سب کے سامنے اپنی حقیقت بتا دی۔‘

احمد کہتے ہیں کہ وہ جھوٹ نہیں بولنا چاہتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ جانتے ہیں کہ ایچ آئی وی پازیٹیو مریض کس حد تک حساس ہوتے ہیں اور نوکری ان کے لیے اس بیماری کے ساتھ آسان نہیں رہتی جس کی ایک مثال وہ خود بھی ہیں۔

پنجاب ایڈز کنٹرول پروگرام کے پراجیکٹ ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد فاروق احمد نے انڈپینڈںٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا: ’میں نے حکومت کو تجویز دی ہے

کہ ان لوگوں کو علاج کے بعد ان کو نوکریاں دی جانی چاہیے۔ ہم نے سوشل ویلفیر ڈیپارٹمنٹ سے بھی رابطہ کیا ہے کہ ان کو باقاعدہ طور پر زندگی کے دھارے میں لایا جائے۔‘

ڈاکٹر فاروق کہتے ہیں کہ پنجاب ایڈزکنٹرول پروگرام نے تجاویز دی ہیں کہ ان لوگوں کو کاروبار کروائیں، دکان بنا کر دیں انہیں چھوٹے چھوٹے کام شروع کروائے جائیں۔ اس کے لیے حکومت اور سوشل ویلفیر ڈپارٹمنٹ کا تعاون بہت ضروری ہے۔

احمد اس وقت پنجاب ایڈز کنٹرول پروگرام میں اس بیماری میں مبتلا مریضوں کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ ان کو اس بیماری اور اس کے علاج کے حوالے سے آگاہی دیتے ہیں۔ ان کے دکھ سنتے اور ان کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

احمد نے اس بیماری میں مبتلا ہونے کی کہانی انڈپینڈنٹ اردو کو سناتے ہوئے بتایا: ’میرا ایچ آئی وی کا سفر 2020 میں شروع ہوا۔ اس سال میری والدہ کا ایک آپریشن ہوا۔ انہیں خون کی ضرورت تھی اس لیے میرے خون کا نمونہ بھی لیا گیا۔ اس وقت مجھے بتایا گیا کہ میں ایچ آئی وی پازیٹیوو ہوں۔‘

احمد کہتے ہیں کہ اس وقت انہیں ایچ آئی وی یا ایڈز کے بارے میں کچھ خاص معلوم نہیں تھا۔

احمد نے بات جاری رکھتے ہوئے مزید بتایا: ’کچھ عرصہ کے بعد میں اپنا ٹیسٹ دوبارہ کروایا اور اس میں مجھے معلوم ہوا ہے کہ میں کنفرم ہوں اور لفظ ایڈز اب میرے ساتھ جڑ چکا ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ اس رات وہ بے چین تھے اور ہر تھوڑی دیر کے بعد وہ اپنی رپورٹ آن لائن چیک کرتے اور جب رپورٹ آئی تو انہیں یوں محسوس ہوا کہ جیسے ان کی زندگی ختم ہو گئی۔ احمد نے خود کو چھ ماہ تک کمرے میں بند رکھا۔ کھانا پینا چھوڑ دیا، پڑھائی چھوڑ دی یہاں تک کہ گھر اور باہر کسی سے بات کرنا بھی چھوڑ دی۔

احمد کہتے ہیں کہ انہیں بالکل علم نہیں تھا کہ اس کا علاج کہاں ہونا ہے۔ ’میں نے سوچا کسی سٹور وغیرہ سے دوائی مل جائے گی یا کسی پرائیویٹ ہسپتال سے لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ اس بیماری کا علاج سرکاری سطح پر ہی ہوتا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ جان کر احمد کو مزید فکر یہ لاحق ہوئی کہ اگر وہ سرکاری سطح پر علاج کرواتے ہیں تو سرکار تو ان کا نام عام کر دے گی اور سب کو معلوم ہو جائے گا کہ وہ کس بیماری میں مبتلا ہیں۔

احمد کی بیماری کا جب ان کے رشتے داروں کو معلوم ہوا تو انہوں نے ان کے والدین کو مشورہ دیا کہ وہ اخبار میں اعلانیہ جاری کریں کہ ان کا احمد سے کوئی تعلق نہیں۔

احمد کہتے ہیں: ’دراصل ہمارے ہاں یہ مسئلہ ہے کہ جب کسی کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی کو یہ بیماری ہو گئی ہے تو وہ یہی سوچتے ہیں کہ ضرور کوئی برا کام ہی کیا ہوگا۔ ہمارے ہاں یہ آگاہی نہیں ہے کہ یہ بیماری مختلف طریقوں سے ہو سکتی ہے۔ لیکن میرے رشتے داروں کو یہ بات سمجھ نہیں آرہی تھی۔‘

ان کے خاندان کے خیال میں احمد کی موجودگی خاندان کے دوسرے بچوں کے لیے مسئلہ بن جائے گی۔

احمد کہتے ہیں: ’میری بہنوں خاص طور پرمیری ماں نے میرا ساتھ دیا۔ آپ جس طرح کے مرضی ہوں ماں کبھی آپ کونہیں چھوڑتی۔ لیکن میرے دو بھائی ہیں جو کہ ابھی بھی مجھ سے نہ بات کرتے ہیں نہ ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں۔ وہ یہی سمجھتے ہیں کہ میں نے ان کا نام خراب کیا ہے۔‘

احمد کے خیال میں ایچ آئی وی یا ایڈز کے حوالے سے عوام میں بہت غلط تاثر ہے کہ یہ صرف جسمانی تعلق سے لگتی ہے جبکہ یہ وائرس اور کئی طریقوں سے انسانی جسم میں داخل ہو سکتا ہے۔

احمد کو یہ وائرس کیسے لگا اس حوالے سے انہوں نے بتایا: ’مجھے جو یاد پڑتا کہ مجھے یہ مسئلہ اپنے بال کٹوانے سے ہوا ہے۔ میں نے دانتوں کا علاج بھی کروایا تھا، خون بھی دیا تھا اور بال بھی کٹوائے تھے۔ جب آپ کے ساتھ اتنی بڑی بیماری جڑ جائے تو آپ کی یاداشت کہیں نہ کہیں کام کر جاتی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ مجھے یہ مسئلہ نائی کی وجہ سے ہوا ہے۔‘

احمد اس وائرس کے ساتھ اپنا علاج جاری رکھے ہوئے ہیں اور ایک نارمل شخص کی طرح اپنی زندگی بھی گزار رہے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ان کی شادی بھی ہوئی ہے اور ان کی اہلیہ اس وائرس سے پاک ہیں۔

احمد نے بتایا: ’میں نے جب شادی کی تو میں نے اپنی بیوی، اس کے والدین سب کو بتایا کہ مجھے یہ بیماری ہے۔ میری بیوی نے تب بھی مجھ سے شادی سے انکار نہیں کیا۔ ہاں اب یہ ہے کہ اگر ہم بچہ پیدا کرنے کا منصوبہ بناتے ہیں تو اس کے لیے مجھے اپنے ڈاکٹر سے مشورہ کر کے کچھ مخصوص ادویات کھانا ہوں گی۔ جس کے بعد ہم ایک صحت مند بچہ پیدا کر سکیں گے لیکن فی الحال میں نے اور میری بیوی نے اپنا خاندان بڑھانے کے بارے میں نہیں سوچا۔‘

پنجاب ایڈز کنٹرول پروگرام کے پراجیکٹ ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد فاروق احمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ صوبہ پنجاب میں اس وقت 37 ہزار افراد ایچ آئی وی وائرس میں مبتلا ہیں۔

ان میں سے چھ ہزار لوگوں کی جان جا چکی ہے جبکہ سات سے آٹھ ہزار لوگ اس بیماری کا جاننے کے بعد چھپ چکے ہیں اور ہم ان کی تلاش جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ 27 ہزار مریض ایسے ہیں جو باقاعدگی سے اپنا علاج کروا رہے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی صحت