نئی تحقیق کے مطابق ڈپریشن کا تعلق منہ میں موجود بیکٹیریا میں تنوع کی کمی سے ہو سکتا ہے۔
جب آپ یہ پڑھ رہے ہیں، آپ کے منہ میں 50 ارب سے ایک کھرب تک بیکٹیریا موجود ہیں۔
آنتوں کے بعد انسانی جسم میں منہ وہ دوسرا حصہ ہے جہاں جرثوموں کی سب سے بڑی تعداد پائی جاتی ہے۔
اب نیویارک یونیورسٹی کے محققین کا کہنا ہے کہ ان جراثیم کی ساخت کو ڈپریشن کی تشخیص اور علاج میں مدد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
نئی تحقیق میں انہیں معلوم ہوا کہ منہ میں جراثیم کا کم تنوع ڈپریشن جیسے ذہنی مسئلے سے جڑا ہو سکتا ہے۔
نیویارک یونیورسٹی کے روری مائرز کالج آف نرسنگ کے شعبہ تحقیق کی نائب ڈین ڈاکٹر بے وو نے ایک بیان میں کہا ’یہ ممکن ہے کہ منہ میں موجود جراثیم سوزش یا مدافعتی نظام میں تبدیلیوں کے ذریعے ڈپریشن کی علامات پر اثر انداز ہو۔
’اس کے برعکس ڈپریشن خود بھی ایسی تبدیلیاں لا سکتا ہے جیسے کھانے پینے کے معمولات میں فرق، منہ کی ناقص صفائی، سگریٹ نوشی اور شراب نوشی میں اضافہ، یا ادویات کا استعمال۔
’یہ سب عوامل منہ کے مائیکرو بایوم کو بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہمیں اس تعلق کی سمت اور اس کے داخلی اسباب کو سمجھنے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔‘
بے وو اس تحقیق کی سینیئر مصنفہ ہیں، جو اس ہفتے بی ایم سی اورل ہیلتھ نامی جریدے میں شائع ہوئی۔
ان نتائج تک پہنچنے کے لیے مصنفین نے بیماریوں کے کنٹرول اور روک تھام کے امریکی ادارے کے زیر اہتمام نیشل ہیلتھ اینڈ نیوٹریشن ایگزامینیشن سروے کے ڈیٹا کا جائزہ لیا۔
انہوں نے 2009 سے 2012 کے درمیان جمع کیے گئے 15 ہزار سے زائد بالغ افراد سے پوچھے گئے سوالات پر مشتمل ڈیٹا کا تھوک کے نمونوں کے ساتھ موازنہ کیا تاکہ ڈپریشن کی علامات کو سمجھا جا سکے۔
انہوں نے تھوک میں موجود جرثوموں کی شناخت اور منہ میں موجود جراثیم کے تنوع کو جانچنے کے لیے جین سیکوئن سنگ بھی استعمال کیا۔
اسی تجزیے سے یہ انکشاف ہوا کہ جن افراد میں جراثیم کا تنوع کم تھا، ان میں ڈپریشن کی علامات پائے جانے کا امکان زیادہ تھا۔
مزید تجزیے سے یہ بھی سامنے آیا کہ سگریٹ نوشی، شراب نوشی اور دانتوں کی دیکھ بھال جیسی عادات منہ کے جراثیم اور ڈپریشن کے درمیان تعلق پر اثر انداز ہوتی ہیں، کیوں کہ یہ سب عوامل منہ میں بیکٹیریا کی ساخت کو تبدیل کر سکتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے نشاندہی کی کہ ڈپریشن اور دوسرے نفسیاتی مسائل کے لیے لیے جانے والے ادویات کے مضر اثرات میں تھوک کی مقدار میں کمی اور منہ کے مائیکروماحولیاتی نظام میں تبدیلی شامل ہو سکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اس لیے یہ ادویات نہ صرف ڈپریشن کی علامات کو کم کرتی ہیں بلکہ منہ کی صحت پر بھی ان کا ایک باقاعدہ اثر پڑتا ہے۔‘
تاہم یہ اب بھی واضح نہیں کہ آیا منہ میں موجود جراثیم کا تنوع ڈپریشن پر اثر انداز ہوتا ہے، یا ڈپریشن منہ میں موجود جراثیم میں تبدیلی کا باعث بنتا ہے، یا دونوں کے درمیان کوئی باہمی تعلق موجود ہے؟
انہوں نے نشاندہی کی کہ حالیہ تحقیق میں ڈپریشن اور آنتوں میں موجود بیکٹیریا کے تنوع کے درمیان ممکنہ تعلق سامنے آیا اور تحقیق کا بڑھتا ہوا دائرہ اس بات کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ منہ کا مائیکرو بایوم مجموعی صحت سے منسلک ہو سکتا ہے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ اس تعلق کی بنیاد سوزش اور مدافعتی نظام میں آنے والی خرابی ہے۔
محققین کو امید ہے کہ یہ نتائج اس مسئلے کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد دیں گے۔
2021 میں اندازاً دو کروڑ 10 لاکھ بالغ افراد گذشتہ سال کے دوران ڈپریشن کے کم از کم ایک بڑے دورے کا شکار ہوئے۔
ڈاکٹر وو کے مطابق ’منہ کے جراثیم اور ڈپریشن کے درمیان تعلق کو بہتر طور پر سمجھنے سے نہ صرف ہمیں ڈپریشن کے پس پردہ موجود نظاموں کے بارے میں جاننے میں مدد ملے گی بلکہ یہ موڈ کی خرابی کے نئے ٹیسٹ یا علاج میں بھی معاون ثابت ہو سکتا ہے۔‘
© The Independent