جوتے آپ کی انویسٹمنٹ ہیں، زمین کی طرح سوچ کے لیں

بہت زیادہ نرم جوتا بھی کمر پہ غلط پریشر ڈالتا ہے، یوں سمجھیں آپ تکیوں پہ واک کر رہے ہوتے ہیں، انسانی پاؤں تکیوں پہ چلنے کے لیے بنے ہیں؟

مجھے شروع میں صرف شک تھا لیکن حادثاتی طور پہ مجھے ایک دن اچانک اس مسئلے کا حل مل گیا جس نے کوئی ایک ڈیڑھ سال سے میری مت ماری ہوئی تھی۔

سوتے جاگتے اٹھتے بیٹھتے کسی بھی وقت خواہ مخواہ مجھے کمر کے نچلے حصے میں درد شروع ہو جاتا تھا۔ میری عمر کے بندوں کا ایک مسئلہ یہ بھی ہوتا ہے کہ انہیں ساری چیزیں ’بڑھتی عمر‘ کے کھاتے میں ڈالنی ہوتی ہیں، میں بھی سمجھ گیا کہ استاد بسم اللہ ہو گئی ہے، اور ٹھنڈا سانس بھر کے بے سکونی سے بیٹھ گیا۔

پیدل چلنے کا مجھے شوق ہے، ایک دن نکلا تو وہ جوتے پہن لیے جو دفتر کے لیے رکھے ہوتے تھے، واپس آیا تو محسوس ہوا کہ یار درد اس طرح کا نہیں ہے جیسا چل رہا تھا۔ دوسرے دن پھر پرانے جوتے پہن کے نکل گیا، گھر آیا تو پھر وہی بے آرامی۔ وہ انسان ہی کیا جسے سر پہ سیب گرنے سے کشش ثقل سمجھ آئے۔

دو ہفتے مزید یہ سلسلہ چلا، فرش پہ میں پہلے ہی سوتا تھا، گدا سخت والا تھا، پوسچر کے مسئلے بھی سارے کوشش کر کے ٹھیک کیے، لگا کہ دفتر جاتے ہوئے کندھے والا بیگ تھوڑا بھاری ہوتا ہے، اسے بھی ہلکا کر لیا لیکن کام بن نہیں رہا تھا۔

اب ایک دن محسوس ہوا کہ استاد واک کرتا ہوں تو درد زیادہ ہوتا ہے، یا خدا! میں نے تو چلتے پھرتے مرنے کی دعا مانگی تھی، یہ کیا گیم ہو رہی ہے؟ تب تحقیق شروع کی اور مدعا یہ نکلا کہ میرا شک ٹھیک تھا، ہر جوتا ہر انسان کے لیے نہیں ہوتا۔

بہت زیادہ نرم جوتا بھی کمر پہ غلط پریشر ڈالتا ہے، یوں سمجھیں آپ تکیوں پہ واک کر رہے ہوتے ہیں، انسانی پاؤں تکیوں پہ چلنے کے لیے بنے ہیں؟ میرا خیال ہے نہیں، تو میرے وہ جوتے جو تھے وہ ایک بہت آرام دہ والی کمپنی کے تھے اور انٹرنیٹ پہ بھی گواہیاں پائی گئیں کہ زیادہ چلنے کے لیے وہ جوتے کچھ مناسب نہیں تھے، دفتر والا جوتا نارمل کمفرٹ کا تھا۔

جوتا بدلا گیا، وہ مرحلے بھی کیسے طے ہوئے الگ کہانی ہے لیکن جوتا بدلنے کے ایک دو ہفتے بعد آہستہ آہستہ کمر سکون میں آتی گئی اور چلنے پھرنے کا وقت دوبارہ پہلے جیسا ہو گیا۔

جو سب سے بڑا سبق اس پوری مشق سے مجھے ملا وہ یہ تھا کہ روزانہ پہننے کے لیے یا ورزش کے واسطے جوتا خریدنا ایسے ہے جیسے کہیں پلاٹ لینا، فرق اتنا ہے کہ وہ انویسٹمنٹ آپ معاشی حالات بہتر بنانے کے لیے کر رہے ہوتے ہیں جب کہ یہ والی رقم سیدھی سیدھی آپ کے جسمانی مستقبل پہ لگ رہی ہوتی ہے۔ یہ فیکٹ اچھے جوتے بنانے والوں کو پتہ ہے اس لیے عموماً اچھے جوتے کافی زیادہ مہنگے بھی ہو جاتے ہیں۔

آپ کی ٹانگوں میں درد ہے، گھٹنے، کمر، ہپ جوائنٹ، کوئی بھی مسئلہ ہے تو سب سے پہلے اپنے جوتوں پر توجہ دیں، اس کے بعد کسی بھی دوسری چیز کا نمبر آتا ہے۔

ایک چیز یاد رکھیں کہ پرانا جوگر یا آرام دہ جوتا اگر ایڑھیوں کی سائیڈ سے گھس چکا ہے تو اب اسے بدلنے کا وقت ہے۔ آرام دہ ہونے کے باوجود آپ جتنا زیادہ اس میں چلتے جائیں گے اتنا آپ کے جسم میں کھچاؤ پیدا ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔

مہنگا جوتا ہمیشہ مسئلے کا حل نہیں ہوتا، عین ممکن ہے آپ کا پاؤں اس جوتے کے لیے نہ بنا ہو اور آپ ہزاروں روپے خرچ کر کے بھی اس میں زیادہ دیر تک نہ چل پائیں۔ جوتا لیتے ہوئے اپنے پیر کی شیپ دیکھیں اور پرانے تجربے سے طے کریں کہ آپ گول ٹو والے جوتے میں زیادہ آرام سے چلتے ہیں یا لمبوتری شکل والے میں۔

واک یا ورزش کے لیے سب سے محفوظ چوائس تسموں والے جوگرز ہوتے ہیں، وہ اگر آپ کے پیروں میں ٹھیک سے فٹ ہیں تو اگلی مرتبہ جوتا لیتے وقت کوئی تجربہ نہ کریں۔

آن لائن خریداری کے وقت اپنا پاؤں سینٹی میٹرز میں ناپیں اور اس کے حساب سے جوتا خریدیں، جیسا میرا پاؤں 25 سینٹی میٹر ہے تو مجھے کچھ جوتے آٹھ نمبر کے بھی آ جاتے ہیں لیکن بعض اوقات آٹھ نمبر سلام تک نہیں کرتا۔ اس صورت میں مجھے صرف یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ جوتا کم از کم دو تین سینٹی میٹر بڑا ہو یا پھر میری سیف چوائس نو نمبر ہوتا ہے۔ برینڈز کے سائز میں بھی عموماً فرق ہوتا ہے۔

آپ کے پیر کا سائز ہمیشہ ایک جیسا بھی نہیں ہوتا، اگر پچھلے سال آپ دبلے تھے اور اس برس وزن بڑھ گیا ہے تو عین ممکن ہے جوتے کا سائز بھی ایک نمبر بڑھ گیا ہو۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’پہن کے کھلے ہو جائیں گے۔‘ اس چکر میں کبھی نہ آئیے گا، خریدتے وقت جو چیز تکلیف دے رہی ہے دو گھنٹے پہننے کے بعد اس نے پیروں کا درد سر تک پہنچا دینا ہے۔ ایسی کہانی صرف اعلیٰ چمڑے کے جوتوں میں ہوتی تھی جو آج کل کم ہی مل پاتے ہیں، اور وہ بھی صرف اس حد تک کہ جوتا پیر کے حساب سے خود کو اسی شکل میں ڈھال لیتا تھا، نہ کہ دو انچ کھلا ہو جاتا کرتا۔

فٹ بال، باسکٹ بال، رننگ، پہاڑ چڑھنا، لمبی واک کرنا، جم میں ورزش کرنا، ان سب چیزوں کے لیے گوروں نے الگ الگ جوتے بنائے ہیں، پیسے نہیں ہیں تو لنڈے سے جا کے بہترین مل جائیں گے، لیکن پہلے انٹرنیٹ پہ دیکھ لیں کہ اصل میں آپ کو جوتے چاہیے کس طرح کے ہیں۔

عام طور پہ آپ کا ایک پاؤں دوسرے سے تھوڑا سا بڑا ہوتا ہے، جوتا لے کے، دونوں پیروں میں پہن کر دکان ہی میں بھاگ دوڑ کے دیکھیں، ممکن ہو تو ایک دو چھلانگیں لگا کر دیکھ لیں، آرام دہ لگتا ہے تو خریدیں، ذرا سا بھی کاٹتا ہے تو بعد میں زیادہ تنگ کرے گا، چھوڑ دیں۔

اور ہاں، بڑے ٹھیک کہتے ہیں، جوتے شام کے وقت ہی جا کر لیں، چلنے، پھرنے، بیٹھنے کے بعد اس وقت تک آپ کے پاؤں اپنے ٹھیک سائز میں ہوتے ہیں۔

ان سب میں بھی درخت پہ چڑھنے والا گُر سادہ ترین ہے کہ جوتا پورا پورا پاؤں کے سائز کا ہونا چاہیے، بچپن میں اماں ابا ایک سائز بڑا دلاتے تھے، اب آپ نے مزید بڑے نہیں ہونا، ناپ کا جوتا لیں، موج کریں!

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ