الماری میں چھپایا ہوا پرفیوم لگانا کیوں ضروری ہے؟

لوگ سینٹ کی بوتلیں چھپا کے رکھتے کیوں ہیں؟ روز کیوں نہیں استعمال کرتے؟ لوگوں کو سنگھانی ہے یا کچھ اپنے لیے بھی کرنا ہے؟ ختم ہو جائے گی؟

جو پرفیوم ادھر الماری میں سب سے چھپا کے رکھا ہوا ہے وہ سال میں آپ کتنی بار لگاتے ہیں؟

جمعے کو، عید کے دن یا بس کسی ہائی کلاس فنکشن میں جاتے ہوئے؟ ظاہری بات ہے کہ مہنگا ہو گا اور خوشبو بھی پسند ہے، اسی لیے پوری دنیا سے الگ رکھا ہوا ہے۔

ادھر لیکن دو مسئلے ہیں۔ ایک تو یہ کہ بوتل میں موجود پرفیوم نے زندگی میں کبھی نہ کبھی ختم بھی ہونا ہوتا ہے۔ دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ماہرین کے مطابق عام طور سے پرفیوم تین سال اور کوئی بہت خاص خوشبو ہو تو زیادہ سے زیادہ دس سال تک کارآمد رہتی ہے، اس کے بعد اڑ جاتی ہے یا ہلکی ہو جاتی ہے۔

ایک کام اور بھی ہو سکتا ہے کہ بوتل رہ جائے اور مالک ۔۔۔ کی دم دا بھروسہ یار، دم آوے نہ آوے!

پہلی بار ایک دوست سے سنا کہ انہیں رات کو پرفیوم لگا کے سونا بہت پسند ہے۔ کافی حیران ہوا لیکن وہ چیز دماغ میں اٹکی رہی۔

دو تین سال ساری بوتلیں سنبھال کے غوروفکر کرتا رہا، آخر اس نتیجے پر پہنچا کہ استاد پرفیوم لگانے کے لیے ہوتا ہے دیکھنے کے لیے نہیں، اس دن سے بڑا خوشبودار قسم کا طلسماتی افاقہ ہے!

خوشبو کوئی آج کل کی بات نہیں، ہزاروں برس سے ہمارے ساتھ ’ناک‘ اٹیچ ہے اور اس کا اہم ترین کام سونگھنا ہی ہے۔ جتنے پرفیوم، عطر، سینٹ وغیرہ ہم اپنے آس پاس دیکھتے ہیں یہ کوئی ایک دن میں نہیں بن گئے، ان کے پیچھے پوری انسانی تاریخ ہے۔

صدیوں کے اس سفر میں ایک چیز ہمارے ساتھ گڑبڑ ہو گئی کہ خوشبوئیں ہم لوگوں کو مشکل ہو کر ملیں، ہماری ناک بنیادی خوشبوؤں میں، جو ہمارے آس پاس بکھری ہیں، ان سب میں کوئی تمیز نہیں کر سکتی۔

ایک پرفیوم ہے، اس میں کمپنی دھنیے، چنبیلی، لیونڈر، مالٹے سمیت دو تین جڑی بوٹیوں کی خوشبو ملاتی ہے، آپ کے سامنے وہ پہنچے گا تو اس کا نام ’کول واٹر‘ ہو گا۔ اب پرفیوم آپ لگائیں گے، خوش ہوں گے، کبھی بہت زیادہ سوچا تو شاید ایک آدھا ’نوٹ‘ آپ پکڑ پائیں گے، باقی سب کچھ کدھر گیا؟

خوشبو کو جاننا کیوں ضروری ہے؟ اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ آج تک ہم آنکھیں بند کے پرفیوم لگاتے یا سنبھالتے ہیں، کئی لوگ آئے، کتنے چلے گئے، کیا ہی اہمیت ہے کسی خوشبو کو بیان کر سکنے کی؟

شاید یہ کہ جب ہم غور کرنا شروع کریں گے تو ہمیں پتہ لگے گا کہ تمباکو کا پتہ بھی خوشبوؤں میں استعمال ہوتا ہے، بارش کے پہلے قطروں پر زمین سے جو مہک اٹھتی ہے عین وہ خوشبو بھی آپ کو مارکیٹ میں مل سکتی ہے اور درختوں کی لکڑی تک آپ کے مہنگے ترین پرفیومز میں استعمال ہوتی ہے۔ خوشبو ہمارے آس پاس بکھری ہے، ناک بھی موجود ہے، سونگھنے کے لیے نصیبوں کا جاگنا ضروری ہے شاید۔

ادھر شروع میں کہا تھا کہ وہ رات کو پرفیوم لگانے والی بات دماغ میں اٹکی رہی، تو اس پہ کافی سوچا، ہلکے پھلکے پرفیوم لگا کر سویا بھی، پھر گوگل کھنگالا، کل ملا کر یہ بات سامنے آئی کہ اگر کوئی خوشبو سوٹ کر جائے، یا دماغ کو سمجھ آ جائے تو پرسکون نیند میں اس کا بھی اچھا خاصا کردار ہو سکتا ہے۔

ضروری نہیں کہ اچھی خوشبو مہنگی ہو، لیکن کمرے میں آپ کے داخل ہوتے ہی جو مہک سب کی ناکیں سونگھیں گی وہ ایسی ضرور ہونا چاہیے کہ سب کے لیے قابل قبول ہو۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اب تک میں چھ سو لفظ کہہ چکا، سب سے اہم بات یہ ہے کہ پرفیوم اگر تیز ہے تو اسے بالکل تھوڑا سا لگائیں بلکہ ٹانگ کی طرف کہیں لگائیں۔ ہمارے آس پاس بہت سے ایسے دوست ہوتے ہیں جو ہیوی خوشبو کی مار نہیں سہہ سکتے، آپ بے شک عادی ہوں لیکن ان پہ رحم کرنا چاہیے۔

ہماری طرف کی خوشبوئیں نسبتاً تیز ہوتی ہیں۔ گلاب، چنبیلی، موتیا، صندل، عود، خس، مشک یہ سب ضروری نہیں کہ پورے جسم پہ چھڑکی جائیں یا عطر ہے تو اس کی لمبی لکیریں کلائی پہ ڈال کے گھومیں، ایک قطرہ ۔۔۔ ایک بار کا سپرے، یہ سب بہت کافی ہوتا ہے اگر خوشبو تیز ہے۔

انسانی جسم میں خوشبو سے متعلق 300 ریسپٹر ہوتے ہیں اور 2016 کی ایک خالص سائنسی تحقیق کے مطابق خوشبو نہ صرف آپ کے موڈ، مزاج، بلڈ پریشر اور کام کرنے کی صلاحیت سمیت پورے سماجی رویے پہ اثر انداز ہوتی ہے بلکہ اسے کئی امراض میں علاج کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔

یہ تحقیق فقیر نے ماڈرن دماغوں کے لیے ڈالی ہے ورنہ اپنے یہاں تو صدیوں سے بے ہوشوں کو لخلخہ سنگھا کے ہوش میں لایا جاتا تھا اور درد سر کے واسطے صندل لگانا مفید ہوا کرتا تھا۔

اگر اتنے سارے فائدے ہیں تو اپن لوگ سینٹ کی بوتلیں چھپا کے رکھتے کیوں ہیں؟ روز کیوں نہیں استعمال کرتے؟ لوگوں کو سنگھانی ہے یا کچھ اپنے لیے بھی کرنا ہے؟ ختم ہو جائے گی تو بابا اپنے شہر میں کسی بھی عطر والے کے پاس لے کے جائیں، وہ مہربان شخص بوتل سونگھ کے آپ کو تقریباً ویسا ہی پرفیوم دوبارہ بنا کر دے دے گا۔

ایک پرفیوم جن مختلف خوشبوؤں سے مل کے بنا ہوتا ہے انہیں ’نوٹس‘ کہا جاتا ہے۔ ہماری ناک کچھ نوٹس کی پہچان کر لیتی ہے کچھ نہیں کر پاتی۔ جو لوگ پرفیومری سے وابستہ ہوتے ہیں ان کو خدا نے سارے نوٹس الگ الگ سمجھنے کی پہچان دی ہوتی ہے، وہ انیس بیس کے فرق سے اکثر پرفیوم دوبارہ بنا سکتے ہیں۔ ہم جیسے لوگ جو ہزاروں روپے خوشبو پہ نہیں گلا سکتے ان کے لیے یہ آپشن اچھا خاصا پریکٹیکل ہے۔

ہمارے چھوٹے چھوٹے بچے آج کل ’زندگی کا مقصد‘ ڈھونڈتے نظر آتے ہیں۔ کچھ کو لگتا ہے انہیں اللہ میاں نے کسی خاص مشن پہ بھیجا ہے۔ میرے خیال میں اگر صرف اچھی اور اپنی پسند کی خوشبو لگا کے دن شروع ہی کر لیں تو آدھے فاسد خیال آپ کا دماغ چھوڑ دیں گے، باقی آدھے بہرحال ضروری ہیں، بندے نے کوئی کام تو بہرحال کرنا ہی ہوتا ہے!

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ