کیا آپ کو میجک شو دیکھنے کا مزہ آتا ہے؟

زندگی میں کتنے حقائق ایسی ہیں جو آپ نے خود طے کیے ہیں اور دوسرے انہیں فالو کرتے ہیں؟ کوئی تھیوری جس پر آپ کا یقین پکے والا ہے اور اسے پیش بھی آپ نے کیا ہو؟ یقیناً ایک بھی نہیں۔ سوچ کا مکمل دائرہ طے شدہ آپ نے وصول کیا ہے!

آج تک دل چاہتا ہے کہ میرے پاس ایک جادوئی چادر ہو جسے اوڑھوں تو میں غائب ہو جاؤں۔ غائب ہونے کے بعد کرنا کیا ہے، آف کورس اتنا سارا کچھ تو نہیں بتایا جا سکتا۔

جادوگر اپنی ٹوپی میں سے کبوتر نکالتا ہے تو بچے اسے کتنی حیرت اور دلچسپی سے دیکھتے ہیں، ہم کیوں نہیں دیکھتے؟

یاد ہے بچپن میں کتنے شوقین تھے ہم لوگ جادوئی کرتب دیکھنے کے؟

تاش کے پتوں سے ٹرِکس ہوتی تھیں، جادوگر کوٹ کی جیب یا منہ سے جو ایک کپڑا نکالتا وہ تو کبھی ختم ہی نہیں ہوتا تھا اور اس طرح کی بے شمار بلکہ ان گنت چیزیں تھیں۔

اب کبھی میجک شو دیکھنا پڑ جائے تو نوٹ کیجیے گا کہ آپ باقاعدہ گھڑی دیکھتے رہتے ہیں کہ یار اس چکر سے جان کب چھوٹتی ہے۔ جو چیز بچپن میں اتنی پسند تھی کہ اس کے لیے ہم پیسے چرانے کا بھی سوچ سکتے تھے وہ اب اتنی بور کیوں لگتی ہے؟

اب ہمیں علم ہے کہ یہ نظر کا دھوکا ہے۔ یہ بات ہمارے لیے اس طرح کرسٹل کلئیر ہے جیسے میں کہوں کہ آسمان کا رنگ نیلا ہے۔ آسمان کبھی آتشیں گلابی نہیں ہو سکتا اور جادوئی کرتب کبھی اصل نہیں ہو سکتے یہ بات ہمارے دماغوں میں رچ بس چکی ہے۔

کیا حرج ہے اگر ہم اتنی گنجائش نکال لیں کہ آسمان آتشیں گلابی ہو سکتا ہے۔ اسے یوں سمجھ لیں کہ جسے میں نیلا سمجھتا اور دیکھتا ہوں کیا پتہ کسی دوسرے کو وہ رنگ آتشیں گلابی لگتا ہو۔

ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ اب آپ سوچ رہے ہیں کہ یہ بندہ پاگل واگل ہے؟ حق ہے، ایسا ہی ہو گا لیکن اگر میں یہ کہوں کہ آسمان کے رنگ کا سوچتے ہوئے ایک چھوٹے سے امکان کی گنجائش لیں تو کیا حرج ہے؟

ہر چیز پہ سو فیصد جم جانا اصل میں بندے کی مت مار دیتا ہے۔ یقین کا تالہ اتنا پکا ہوتا ہے کہ بعد میں اپنی چابی سے بھی نہیں کُھلتا۔ اسے زنگ سمجھ لیں، ہتھوڑے سے توڑا جا سکتا ہے لیکن بند ہو جائے تو بندہ سمجھیں گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایک کام اور بھی ہو سکتا ہے۔ آپ جادوئی کرتب نہ دیکھیں بلکہ وہ سب کچھ دیکھتے ہوئے کسی بچے کو دیکھیں۔ اس کی آنکھیں دیکھیں، اس کے چہرے پر بدلتے رنگ دیکھیں، شوق کی کیفیت دیکھیں، اسے تالیاں بجاتا دیکھیں، جب وہ پورا شو دیکھ لے تو اس سے پوچھیں کہ تمہیں کیا چیز سب سے زیادہ پسند آئی۔ اس کا جواب سنیں گے تو سمجھ آ جائے گی کہ کھلا ہوا تالہ کیسا ہوتا ہے۔

بچے کے لیے کچھ بھی ممکن ہو سکتا ہے۔ وہ بڑا ہوتا ہے تو اس پہ حیرانی کے یہ دروازے ہم خود ہی بند کر دیتے ہیں۔ ہم اسے پڑھاتے ہیں کہ دیکھو یہ بات بالکل پکی ہے، اس بات میں شک کی گنجائش نشتہ اور باقی اپنے بڑوں کو دیکھ کے وہ خود ہی سمجھ جاتا ہے۔ بے شک سارے اچھے بچے ایسے ہی ہوتے ہیں۔

کوئی بچہ اگر کہے کہ ’میں جادو کے زور سے آپ کو غائب کر دوں گا‘ تو آپ خوش ہوں گے، اسے پیار سے دیکھیں گے، اس کے ساتھ کھیلیں گے لیکن یہی بات کوئی بیس سال کا بندہ کرے تو آپ سمجھ جائیں گے کہ یہ کھسکا ہوا ہے۔

یہ والی جو ’سمجھ‘ ہے، یہ ہمیں دوسروں کا مذاق اڑانے پہ آمادہ کرتی ہے، ان کے کسی خیال کو ’بچگانہ‘ سمجھنے میں مدد دیتی ہے اور ہم کسی بھی ایسی بات کو جو ہمارے یقین پہ ٹھا کر کے وجتی ہو، اسے ایک دم رد کر دیتے ہیں۔

فوراً ریجیکٹ کرنے کا مطلب یہ ہوا کہ ہم نے ڈائیلاگ کا دروازہ بند کر دیا اور اگر بات کی تو بھی اگلے بندے کی اصلاح کا ٹھیکا لے لیا۔ اصلاح کیا ہے؟ وہ بات جسے ہم ٹھیک سمجھتے ہیں۔

ہماری ٹھیک بات ہمیں کہاں سے ملی؟ میڈیا سے؟ کتابوں سے؟ اخبار سے؟ کسی دوسرے کے تجربے سے؟

زندگی میں کتنے حقائق ایسے ہیں جو آپ نے خود طے کیے ہیں اور دوسرے انہیں فالو کرتے ہیں؟ کوئی تھیوری جس پر آپ کا یقین پکے والا ہے اور اسے پیش بھی آپ نے کیا ہو؟ یقیناً ایک بھی نہیں۔ سوچ کا مکمل دائرہ طے شدہ آپ نے وصول کیا ہے!

غور کریں، موبائل کیمرہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔ دو بندوں کی لڑائی سڑک پہ ہوتی ہے۔ ان میں سے ایک آپ کا دوست ہے۔ جس وقت وہ دوسروں کو پھینٹ رہا ہے تب آپ اس کی ویڈیو نہیں بناتے لیکن جیسے ہی اسے کُٹ پڑنی شروع ہوتی ہے آپ کیمرہ آن کر دیتے ہیں۔ گھر آ کے اس ویڈٰیو کو آپ چلا دیتے ہیں، وہ وائرل ہو جاتی ہے۔ دنیا والے کس چیز کا یقین کریں گے؟ آنکھوں دیکھی کا؟ لیکن وہ کس کی آنکھ سے دیکھ رہے ہوں گے؟ آپ کی آنکھ سے، آپ کے کیمرے سے، آپ کے اینگل سے، آپ کی ادھوری ویڈیو سے۔۔۔تو یہی معاملہ دنیا بھر کے سارے حقائق کا ہے۔

وہ چیز جو ہم اپنے دماغ میں ایک بار ’طے‘ کر لیتے ہیں اس سے الگ کچھ بھی سامنے آتا ہے تو انجوائے کرنا یا سوچنا دور کی بات، ہم باقاعدہ مخالفت کرنے اور لڑنے بھڑنے پہ تُل جاتے ہیں۔ یہ سب نہیں تو بار بار گھڑی دیکھتے ہیں کہ اس چکر سے جان کب چھوٹے گی، وہی میجک شو والا سین۔

میجک شو ہو یا کچھ بھی اور، تالہ چونکہ لگ گیا تو بس اب مزے ختم۔ اب مخالفت ہو گی یا بوریت!

آسان ترین حل یہ ہے کہ جو بات بھی عقل سے ٹکراتی نظر آئے اس میں کیمرے کا اینگل ڈھونڈیں۔ سوچیں کہ آخر یہ بات آئی تو کہاں سے آئی۔ جب مخالفت کی جگہ دماغ میں سوال ابھرنا شروع ہو جائیں گے تو شاید کچھ اور ہو نہ ہو لیکن میجک شو والے دو نمبر جادوگر پہ آپ کو پیار ضرور آنا شروع ہو جائے گا۔

پیار سے اگلا مرحلہ دلچسپی، تحقیق اور بالاخر حیرت کا ہوتا ہے!

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ