بلوچستان: جب ہزاروں سال قبل دانت کا علاج ’ڈرل مشین‘ سے ہوتا تھا

1974 میں فرانسیسی ماہرین کے ہاتھوں بلوچستان میں مہر گڑھ کی دریافت نے اس سرزمین کے بہت سے رازوں پر پڑا پردہ اٹھایا۔

کوئٹہ میں مہر گڑھ عجائب گھر اس تہذیب کی زندہ مثال ہے(ہزار خان بلوچ)

کیا کوئی یقین کر سکتا ہے کہ بلوچستان جیسے غیر ترقی یافتہ علاقے میں سینکڑوں سال پہلے دانت کا علاج ممکن تھا اور وہ بھی ڈرل مشین جیسے کسی آلے کا استعمال کرتے ہوئے؟

معروف دانشور ایوب بلوچ کے مطابق مہر گڑھ 1974 میں فرانسیسی ماہرین کے مشن کے ہاتھوں بلوچستان میں مہر گڑھ کی دریافت اس سرزمین کے بہت سارے رازوں پر پڑا پردہ اٹھایا۔

ایوب بلوچ  کے خیال میں مہر گڑھ کی دریافت سے قبل بلوچستان، جو اپنے محل وقوع اور آثار قدیمہ کے حوالے سے ایک منفرد مقام رکھتا ہے، دنیا کی نظروں سے اوجھل تھا۔

انہوں نے کہا کہ سب سے اہم اور بڑی دریافت مہر گڑھ میں دانت کا علاج کیا جانا تھا، جو ماہرین کو حیرت زدہ کرنے کے لیے کافی تھی۔

اس کے علاوہ انہوں یہ بتایا کے مہر گڑھ کے لوگ زراعت میں بھی بہت ترقی حاص کر چکے تھے۔ 

ایوب بلوچ کہتے ہیں: ’میں بلوچستان کو لاکھوں معجزات کی سر زمین کہتا ہوں جن میں سب سے شاندار مہرگڑھ ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں بلوچستان آثار قدیمہ کے حوالے سے ایک خالی مقام رکھتا تھا، لیکن مہر گڑھ کی دریافت کے بعد اس خطے کو تہذیب دینے والا علاقہ کہا جانے لگا۔

ایوب بلوچ نے مزید کہا کہ مہر گڑھ کی امتیازی حیثیت اس وجہ سے ہے کہ یہ ایک تہذیب یافتہ علاقہ تھا جہاں زراعت، خانہ بدوشی، خوراک، رابطہ کاری، تجارت، سماجی مضبوطی اور طبی سہولیات دیکھنےکو ملتی ہیں۔ 

مہر گڑھ کیا ہے؟

مہر گڑھ کے آثار قدیمہ صوبہ بلوچستان کے ضلع کچھی میں درہ بولان کے منہ کے قریب کچی کے میدان میں ٹیلوں پر مشتمل ہیں۔ 

دریائے بولان کے مغربی کنارے کے قریب سبی شہر سے تقریباً 30 کلومیٹر کے فاصلے واقع مہر گڑھ تقریباً 250 ہیکٹر کے رقبے پر محیط ہے۔

مہر گڑھ کے مقام پر آثار قدیمہ کی گیارہ میٹر سے زیادہ گہرائی میں موجود ہیں، جو ساتویں اور تیسری صدی قبل مسیح کے درمیانی عرصے پر محیط ہیں۔ 

مہر گڑھ آثار قدیمہ کی ایک کلاسک مثال سمجھی جاتی ہے، جس نے کئی نسلوں تک مٹی کی اینٹوں سے بنے ڈھانچوں سے ایک مصنوعی ٹیلے کی شکل اختیار کی۔  

ایوب بلوچ کا کہنا تھا کہ سبی میلے کی ایک پہچان بیل ہیں جن کے نقش مہر گڑھ سے ملے ۔

’دوسری جو چیز اہم ہے وہ یہاں سے ملنے والے مٹی کے برتن ہیں جن پر بنے نقش و نگار ہیں آج بھی بلوچ خواتین کے لباس میں ملتے ہیں۔‘

ان کا خیال ہے کہ موہن جودڑو اور دوسری تہذیبیں مہر گڑھ کے بعد کی ہیں، جو سات ہزار سال قبل مسیح اور نو ہزار سال قدیم تہذیب ہے۔ 

ایوب بلوچ کہتے ہیں کہ ماہرین کا اس طرف آنا بھی ایک حادثہ تھا جب یہ لوگ وڈھ کے علاقے اورناچ میں کام کر رہے تھے لیکن وہاں حالات خراب ہونے کے باعث انہیں وہاں کام بند کر کے مہر گڑھ کا رخ کرنا پڑا۔

فرانسیسی ماہر آثار قدیمہ ژاں فرانسوا جیرگ نے مہر گڑھ کی کھدائی کا کام 1973 میں شروع کیا تھا، جو 30سال تک جاری رہا۔ 

مہر گڑھ یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے کے عارضی لسٹ میں شامل ہے، تاہم اسے ابھی تک عالمی ورثہ قرار نہیں دیا گیا۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سیکرٹری ثقافت بلوچستان منظور حسین کہتے ہیں کہ کوئٹہ میں سریاب روڈ پر واقع مہر گڑھ کے نام سے عجائب گھر موجود ہے اور مہر گڑھ ماضی کی تہذیبوں کی زندہ مثال ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اس عجائب گھر کے لیے کراچی کے سے 17 ہزار سے زیادہ نوادرات اس عجائے گھر منتقل کیے گئے۔

منظور حسین کا کہنا تھا کہ حکومت غیر ملکی فنڈز کے حصول کی کوشش کر رہی ہے تاکہ مہر گڑھ عجائب گھر کو عالمی معیار کا میوزیم بنا جا سکے۔  

انہوں نے مزید کہا بلوچستان کے تمام اہم آثار قدیمہ کی فزیبلٹی سٹڈی مکمل ہو چکی ہے اور ان کی حفاظت کے لیے 20 کروڑ روپے کی منظوری دی جا چکی ہے، جبکہ صوبے میں ڈویژن کی سطح پر عجائب گھر قائم کرنے کی غرض سے مزید 20 کروڑ روپے جاری کیے جائیں گے۔ 

معروف دانشور اور کئی کتابوں کے مصنف فاروق بلوچ کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں آثار قدیمہ کے تحفظ اور لوگوں میں آگاہی پیدا کرنے کے واسطے عجائب گھروں کا قیام ناگزیر ہے۔ 

’کوئٹہ میں پہلا عجائب گھر انگریزوں نے قائم کیا تھا جس کی جگہ بار بار بدلنے کی وجہ سے اس میں موجود بہت سے قیمتی چیزیں ضائع ہو چکی ہیں۔‘

ایوب بلوچ کے مطابق مہر گڑھ سے ملنے والی اشیا کا تسلسل موجودہ بلوچستان کے معاشرے میں اب بھی جاری ہے اور اس سلسلے میں انہوں نے خانہ بدوشی کی مثال دی، جس کے آثار قدیم مہر گڑھ میں ملتے ہیں جبکہ موجودہ بولان میں خانہ بدوشی اب بھی اسی طرح جاری ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان