پنجاب: جھلسنے والے بچوں کے لیے علاج کی سہولتوں کی شدید قلت

پاکستان کا دل کہلائے جانے والے شہر لاہور میں سوا لاکھ کی آبادی کے لیے برن یونٹ کا صرف ایک بستر دستیاب ہے، جو ماہرین کے مطابق نہایت ناکافی ہے۔

19 اکتوبر 2020 کو لاہور کے حفیظ سینٹر میں آگ لگی تھی جس سے اربوں کا نقصان ہوا تھا (اے ایف پی)

آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں حادثات کے دوران آگ سے جھلسنے والے مریضوں کے لیے برن یونٹس کی شدید قلت ہے۔

خاص طور پر پنجاب بھر کے ہسپتالوں میں جلنے والے بچوں کے لیے علاج کی سہولت میسر نہیں، جس کی وجہ سے حادثات میں جھلس جانے والے ایسے بچوں کے علاج میں مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔

جن سرکاری ہسپتالوں میں جھلسنے کا علاج کیا جاتا ہے وہاں دس سال سے زیادہ عمر کے مریضوں کے لیے سہولت فراہم کی جاتی ہے، جبکہ کم سن بچوں کی خاطر علاج کی سہولت ناپید ہے۔

سابق سربراہ جناح ہسپتال برن یونٹ کے بقول صوبے کے ہسپتالوں میں جھلسے بچوں کے علاج کی سہولت موجود نہیں ہے، حتیٰ کہ چلڈرن ہسپتال بھی اس سہولت سے محروم ہے۔

لاہور کی ایک کروڑ 35 لاکھ آبادی کے لیے دو برن یونٹس سمیت دیگر ہسپتالوں میں مجموعی طور پر 110 بستر ہیں، جو آبادی کے لحاظ سے نہ ہونے کے برابر ہیں۔

آتشزدگی کے واقعات روکنے سے متعلق اقدامات بھی موثر نہیں ہو پا رہے، جس سے مشکلات زیادہ میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔

برن یونٹس کی کمی اور مریضوں کی مشکلات

اوکاڑہ سے تعلق رکھنے والی ساڑھے تین سالہ بچی علیزہ چار دن قبل سیڑھیوں سے پاؤں پھسلنے پر نیچے پڑے چولہے پر گری پڑی، اور پکتی ہوئی کھچڑی اپنے اوپر گرا دی، جس سے اس کا 35 فیصد جسم جھلس گیا۔

علیزہ کے چچا عبدالوحید نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ درد سے بلبلاتی بچی کو فورا اوکاڑہ کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال (جی ایچ کیو) لے جایا گیا، جہاں اسے فرسٹ ایڈ تو مہیا کر دی گئی، لیکن ساتھ ہی ہسپتال انتظامیہ نے مریض کو لاہور لے جانے کا مشورہ دیا۔

’اس ہسپتال میں جلے ہوئے بچوں کے لیے علاج کی سہولت دستیاب نہیں ہے۔‘

عبدالوحید نے کہا کہ بچی کو ریسکیو 1122 کی ایمبولینس میں لاہور کے چلڈرن ہسپتال پہنچانے پر انہیں بتایا گیا کہ جلے ہوئے بچوں کے علاج کی سہولت نہ ہونے کے باعث ان کی بچی کو داخل نہیں کیا جا سکتا۔

بچی کے رشتہ داروں نے جنرل ہسپتال رابطہ کیا، اور وہاں سے بھی انکار سننے کو ملا، جس کے بعد علیزہ کو جناح ہسپتال کے برن یونٹ لے جایا گیا، لیکن گھات کے وہی تین پات کے مصداق وہاں سے بھی دس سال سے کم عمر بچوں کے علاج کی سہولتوں کی عدم دستیابی کے باعث معذرت کر لی گئی۔

تڑپتی علیزہ کے رشتہ داروں کے پاس بچی کو گھر لے جانے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا، اور انہوں نے جھلسی ہوئی ننھی جان کو تکلیف سے بچانے کی غرض سے نیند کا ٹیکہ لگوا کر سلا دیا۔

اگلے روز علیزہ کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی، جو وزیر اعلی پنجاب پرویز الہی کی نظر سے بھی گزری، اور ان کے نوٹس لینے پر میو ہسپتال میں برن یونٹ کی انتظامیہ نے بچی کو داخل کرنے کی حامی بھری اور اب اس کا علاج جاری ہے۔

علیزہ اکیلی بچی نہیں جسے جسم کے جھلسنے کے باعث درد سہنا پڑا اور اس کے رشتہ داروں کو تکالیف اٹھانا پڑی، بلکہ پنجاب بھر میں جھلسے بچوں اور دوسرے مریضوں کو ایسی مشکلات کا تقریبا روزانہ سامنا کرنا پڑتا ہے۔

سابق سربراہ برن یونٹ جناح ہسپتال لاہور پروفیسر ڈاکٹر معظم تارڑ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بدقسمتی سے پورے پنجاب میں برن سے متعلق علاج کی سہولتیں بہت محدود ہیں، خصوصا لاہور میں، جہاں بڑے ہسپتالوں میں بھی صرف دو برن یونٹ ہیں۔

لاہور کے جناح ہسپتال میں 30 بستروں کا برن یونٹ جبکہ جنرل ہسپتال میں 50 بستروں کا، اور اسی طرح میو ہسپتال اور گنگا رام ہسپتال میں 15، 15 بستروں کے جلے کا علاج کرنے والے یونٹ ہیں، اور یوں پورے لاہور میں جھلسے ہوئے مریضوں کے علاج کے لیے مجموعی طور پر ایک سو دس بیڈز کی سہولت موجود ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پروفیسر ڈاکٹر معظم تارڑ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ لاہور میں سوا لاکھ کی آبادی کے لیے برن یونٹ کا محض ایک بستر دستیاب ہے، جو بہت ہی ناکافی سہولت ہے۔

ڈاکٹر معظم کے بقول چلڈرن ہسپتال سمیت بچوں کے لیے برن کا پنجاب بھر میں کوئی یونٹ ہے، نہ ہی وارڈ موجود ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ کافی کوششوں کے بعد اب لاہور کے چلڈرن ہسپتال میں ایک برن یونٹ بنایا جا رہا ہے، جس کا آئندہ تین چار سال میں شروع ہونے کا امکان ہے۔

علاج کے ساتھ جلنے کے واقعات روکنا

جھلسنے والے مریضوں کے علاج سے متعلق بات کرتے ہوئے ڈاکٹر معظم تارڑ کا کہنا تھا کہ انسانی جسم کی دوسری تکلیفوں کی نسبت جلے کا علاج مشکل ہوتا ہے، جس میں مریض کی ایک ماہ تک دیکھ بھال کی جاتی ہے، اور اس مقصد کے لیے جدید آلات کے علاوہ اور ماہرڈاکٹر اور عملہ درکار ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ملک اور خصوص صوبہ پنجاب کی آبادی میں اضافے کے ساتھ جھلسنے کے واقعات بڑھ رہے ہیں، لیکن سہولتوں کا فقدان سنگین ترین ہے۔

 ڈاکٹر معظم کہتے ہیں کہ حکومت کو علاج کی سہولتیں مہیا کرنے کے علاوہ ایسے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جن سے حادثات میں انسانوں کے جھلسنےکے امکانات کم ہو سکیں۔

انہوں نے کہا کہ جھلسنے کے سب سے زیادہ مریض صنعتی شہروں بشمول گوجرانوالہ اور سیالکوٹ سے لائے جاتے ہیں، جہاں کارخانوں کے مزدوروں کے لیے کام کے دوران حفاظتی اقدامات کا خیال نہیں رکھا ہے۔

اسی طرح سلینڈرز میں گیس کی بھرائی کے دوران اور گھروں میں استعمال ہونے والی قدرتی گیس کی سپلائی کھلی رہنے کے باعث آتشزدگی کے واقعات ہوتے ہیں، جبکہ خراب گاڑیوں کے سڑکوں پر آنے سے بھی آگ لگنے کے واقعات ہوتے ہیں اور لوگ جھلس جاتے ہیں۔

ڈاکٹر معظم کے مطابق صوبہ پنجاب کے دوسرے علاقوں سے بڑی تعداد میں جھلسنے والے مریضوں کو لاہور لایا جاتا ہے، اس لیے ضلعی سطح پر برن یونٹس کے قیام کی ضرورت ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت