فلسطینی نژاد سائنس دان عمر یاغی کو کیمسٹری کا نوبیل انعام مل گیا

جب یاغی کو انعام کی خبر ملی تو ایک ہوائی اڈے پر سفر کر رہے تھے۔ انہوں نے اس موقعے پر کہا کہ انہیں حیرت اور خوشی دونوں ہوئے ہیں۔

فلسطینی نژاد کیمیا دان عمر مونس یاغی نے بدھ کو کیمسٹری کا نوبیل انعام مشترکہ طور پر جیت لیا ہے۔

نوبیل کمیٹی کے اعلان کے مطابق 2025 کا نوبیل انعام عمر مونس یاغی کے ساتھ شریک انعام یافتگان سوسومو کیٹاگاوا، رچرڈ روبسن ہیں۔

نوبیل کمیٹی کے مطابق ان تینوں انعام یافتگان نے ایک نئی قسم کی مالیکیولائی ساخت معلوم کی ہے جس سے دھات اور آرگینک اجزا کے ملاپ سے فریم ورکس بنائے جا سکتے ہیں۔

اس فریم ورک میں مالیکیول اندر اور باہر حرکت کر سکتے ہیں۔ اس عمل کو صحراؤں میں ہوا سے پانی حاصل کرنے، پانی سے آلودگی ختم کرنے اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کو ذخیرہ کرنے جیسے مفید کام لیے جا سکتے ہیں۔

عمر یاغی 1965 میں اردن کے دارالحکومت عمان میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا خاندان فلسطین سے ہجرت کر کے یہاں آباد ہوا تھا۔

جب یاغی کو انعام کی خبر ملی تو ایک ہوائی اڈے پر سفر کر رہے تھے۔ انہوں نے اس موقعے پر کہا کہ انہیں حیرت اور خوشی دونوں ہوئے ہیں۔

’میں بہت غریب خاندان سے تعلق رکھتا ہوں۔ ہم ایک درجن اہل خانہ ایک کمرے میں رہتے تھے۔ ہمارے ساتھ ہمارے مویشی بھی ہوا کرتے تھے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’میرے والدین پناہ گزین تھے۔ میرے والد چھٹی تک پڑھے تھے، جب کہ والدہ لکھ پڑھ نہیں سکتی تھیں۔‘

15 سال کی عمر میں وہ امریکہ چلے گئے۔ وسائل کی کمی کے باوجود ان کے اندر تعلیم کی لگن تھی، اور انہوں نے پہلے نیویارک سے کالج کی تعلیم اور پھر 1990  میں یونیورسٹی آف الینوئے، اربانا-شیمپین سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

اسی دوران انہوں نے مالیکیولر ڈھانچوں کے اندر موجود خالی جگہوں کو سمجھنے اور استعمال کرنے کے خیالات پر کام شروع کیا، جو آگے چل کر ان کی زندگی کا سب سے بڑا تحقیقی میدان بن گیا۔

یاغی نے بعد میں ایریزونا سٹیٹ یونیورسٹی میں تدریسی کیریئر شروع کیا۔ 1990 کی دہائی میں انہوں نے ریٹیکولر کیمسٹری کا تصور پیش کیا، جس کے تحت یہ دیکھا جاتا ہے کہ کس طرح ایٹمی اور مالیکیولر اجزا کو مضبوط کیمیائی بانڈز سے جوڑ کر ایک نیا، ٹھوس، اور قابلِ پیش گوئی ڈھانچہ بنایا جا سکتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس نظریے سے انہوں نے میٹل-آرگینک فریم ورکس (MOFs) کی بنیاد رکھی، یعنی ایسی کرسٹل نما جالیاں جن میں بےحد چھوٹے سوراخ یا خانے ہوتے ہیں۔

انہیں ایم او ایف کے شعبے کا باوا آدم بھی کہا جاتا ہے۔

یہ MOFs گیسوں کو ذخیرہ کرنے، کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرنے، پانی کے حصول اور توانائی کے ذخیرے میں استعمال ہونے لگے۔ بعد میں انہوں نے کویلنٹ آرگینک فریم ورکس (COFs) اور ہائیڈروجن سٹوریج جیسے نئے تصورات متعارف کرائے۔ ان کا سب سے انقلابی تجربہ وہ تھا جس میں انہوں نے ہوا کی نمی سے پانی کشید کرنے والا آلہ تیار کیا، یعنی ایک ایسا آلہ جو بغیر بجلی کے ریگستان میں بھی پانی نکال سکے۔

یاغی اکثر اپنے بچپن کی پیاس اور پانی کی قلت کا ذکر کرتے ہیں — اور اسی نے انہیں وہ سائنس بنانے پر مجبور کیا جو ہوا سے پانی نکال سکتی ہے۔ ان کے الفاظ میں ’میں نے اپنی کہانی کو سائنس میں ڈھالا۔ میں چاہتا ہوں کہ کوئی اور بچہ پیاسا نہ رہے۔‘

یاغی نے امریکہ کی کئی بڑی یونیورسٹیوں میں پڑھایا: یونیورسٹی آف مشی گن، یو سی ایل اے اور بالآخر یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، برکلی، جہاں وہ آج بھی تدریس اور تحقیق سے وابستہ ہیں۔ وہ برکلی گلوبل سائنس انسٹی ٹیوٹ کے بانی ڈائریکٹر ہیں، جس کا مقصد ترقی پذیر ممالک کے نوجوان سائنس دانوں کو عالمی سائنسی تحقیق میں شامل کرنا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سائنس