افغانستان میں برطانوی فوجی جنگی جرائم کی مرتکب ہوئے: سابق فوجی افسر

سابق فوجی افسر نے کہا کہ اعلیٰ افسروں کو صورت حال کا علم ہونے باوجود اس معاملے میں کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔

سابق برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون 16 دسمبر 2013 کو افغانستان کے جنوبی صوبہ ہلمند میں فارورڈ آپریٹنگ بیس سٹرگا ٹو میں ایک برطانوی فوجی افسر کی بریفنگ سن رہے ہیں (اے ایف پی)

ایک سابق سینیئر فوجی برطانوی افسر نے تحقیقاتی کمیشن کو بتایا ہے کہ افغانستان میں برطانوی سپیشل فورسز مشتبہ افراد کو قتل کر کے بظاہر جنگی جرائم کی مرتکب ہوئیں اور عام طور پر اعلیٰ افسروں کو اس بات کا علم ہونے کے باوجود کچھ نہیں کیا گیا۔

برطانیہ کی وزارت دفاع نے ان تحقیقات کا حکم برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی ٹیلی ویژن کی ایک دستاویزی فلم میں یہ رپورٹ سامنے آنے کے بعد دیا تھا کہ ایلیٹ سپیشل ایئر سروس (ایس اے ایس) کے فوجیوں نے ایک دہائی سے زائد عرصہ قبل افغان جنگ کے دوران مشکوک حالات میں 54 افراد کو قتل کیا تھا۔

تحقیقات میں 2010 کے وسط سے 2013 کے وسط تک برطانوی افواج کی جانب سے رات کو اس وقت مارے گئے متعدد چھاپوں کا جائزہ لیا جا رہا ہے جب وہ طالبان اور دیگر عسکریت پسندوں کے خلاف لڑنے والے اس اتحاد کا حصہ تھیں جس کی قیادت امریکہ کر رہا تھا۔

فوجیوں کے تحفظات

برطانوی فوجی پولیس اس سے پہلے افغانستان میں فورسز کے غلط طرز عمل کے الزامات، جن میں ایس اے ایس کے خلاف الزامات بھی شامل ہیں، پر کئی بار تحقیقات کر چکی ہے، لیکن وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ کسی بھی تحقیقات میں مقدمہ چلانے کے لیے کافی شواہد نہیں ملے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس تحقیقات کا مقصد یہ پتہ چلانا ہے کہ کیا ماورائے عدالت قتل کے بارے میں کوئی قابل اعتبار معلومات موجود تھیں؟ کیا فوجی پولیس نے برسوں بعد سامنے آنے والے خدشات پر مناسب تحقیقات کی، اور کیا غیرقانونی اموات کو چھپایا گیا؟

اس تحقیقات کے سربراہ، سینیئر جج چارلز ہیڈن کیو نے کہا ہے کہ یہ ضروری ہے کہ قانون توڑنے والے کسی بھی شخص کو متعلقہ حکام کے حوالے کیا جائے، جب کہ جنہوں نے کچھ غلط نہیں کیا ان پر سے شک کا سایہ ہٹایا جائے۔

جج کی سربراہی میں ہونے والی انکوائری میں قبل ازیں افغانستان میں موجود فوجیوں کے ’یو کے ایس ایف ون‘ نامی سب یونٹ کے بارے میں تحفظات سنے جا چکے ہیں۔ اس حوالے ایک فوجی نے کہا کہ یونٹ میں شامل فوجی لڑنے کی عمر والے افغان مردوں کو قتل کرنے میں مصروف رہے چاہے وہ لوگ خطرہ نہ بھی ہوں۔

نئے شواہد میں، جو نجی طور پر فراہم کیے گئے، لیکن پیر کو جاری کیے گئے، این 1466 کے نام سے شناخت کیے جانے والے ایک سابق افسر نے، جو اس وقت یو کے سپیشل فورسز ہیڈکوارٹرز میں آپریشنز کے اسسٹنٹ چیف آف سٹاف تھے، انکشاف کیا کہ وہ 2011 میں یو کے ایس ایف ون کی سرگرمیوں کے دوران حراست میں موت کے منہ میں جانے  والے افراد کی تعداد پر شک میں مبتلا ہو گئے تھے۔

چھاپوں کے بعد سرکاری اطلاعات کے جائزے کی بنیاد پر ان کا کہنا تھا کہ جن لوگوں کو جنگ میں دشمن قرار دے کر مارا گیا ان کی تعداد برآمد ہونے والے ہتھیاروں سے زیادہ تھی اور یہ کہ حراست میں لیے جانے کے بعد زیر حراست افراد کی جانب سے بار بار ہتھیار اٹھانے یا دستی بم استعمال کرنے کی کوششوں سے متعلق رپورٹس قابل یقین نہیں لگتی تھیں۔افغانستان میں برطانوی فوجیوں کے جنگی جرائم میں ملوث ہونے کے الزامات کی تحقیقات جاری ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی یورپ