میدان جنگ سے نکل کر جب افغان طالبان نے اقتدار کے ایوانوں کا رخ کیا، تو ان میں سے کچھ نے ہتھیار چھوڑ کر قلم اٹھا لیے، تاکہ مغربی افواج کے ساتھ دو دہائیوں پر محیط جنگ کی اپنی وہ داستان بیان کر سکیں، جس کی ’حقیقت مسخ کرنے‘ کا الزام وہ مغرب پر عائد کرتے ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق اس جنگ پر مغربی نقطۂ نظر سے سینکڑوں کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ یہ جنگ امریکہ کی قیادت میں اُس وقت شروع ہوئی تھی جب 11 ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد افغانستان پر چڑھائی کی گئی، اور پھر 2021 میں طالبان کے دوبارہ برسرِاقتدار آنے پر ختم ہوئی۔
تاہم اب طالبان رہنماؤں کی تحریریں تیزی سے منظرِ عام پر آ رہی ہیں، جن میں اپنے کارنامے اور ’اسلامی امارات‘ کی کامیابیاں بیان کی جا رہی ہیں اور یہی بیانیہ آج افغانستان میں غالب ہے۔
خالد زدران نے اے ایف پی کو بتایا: ’غیر ملکیوں نے چاہے جو بھی لکھا ہو۔۔۔ انہوں نے بڑی حد تک اس حقیقت کو نظرانداز کیا کہ ہمارے ساتھ کیا ہوا اور ہمیں کیوں لڑنا پڑا۔‘
خالد زدران حقانی نیٹ ورک کے رکن رہے ہیں، جسے افغانستان کا سب سے خطرناک گروہ سمجھا جاتا رہا ہے اور اب وہ کابل پولیس کے ترجمان کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔
اپریل میں شائع ہونے والی اپنی پشتو زبان کی 600 صفحات پر مشتمل کتاب میں وہ اپنے آبائی صوبے خوست میں امریکی حملوں، اپنے بچپن میں فوجیوں کے ’مظالم‘ کی کہانیوں سے متاثر ماحول اور اپنے وطن کی ’آزادی‘ کے نام پر طالبان میں شامل ہونے کی خواہش کا احوال بیان کرتا ہے۔
’15 منٹ‘ نامی اس کتاب کا عنوان ایک ایسے امریکی ڈرون حملے سے متاثر ہو کر رکھا گیا، جس سے وہ بال بال بچے تھے۔ اس میں وہ لکھتے ہیں کہ ’میں نے ہر روز لرزہ خیز مناظر دیکھے — سڑک کنارے بکھری لاشیں۔‘
مہاجر فراحی، جو اب نائب افغان وزیر اطلاعات و ثقافت ہیں، نے اپنی کتاب ’یادداشتِ جہاد: قبضے کا 20 سالہ دور‘ میں لکھا کہ ان کا مقصد ’حقیقت بیان کرنا‘ ہے۔
انہوں نے مرکزی قابل میں اپنے دفتر سے اے ایف پی کو بتایا: ’امریکہ نے اپنے دعوؤں کے برعکس سفاک اور وحشیانہ کارروائیاں کیں، ہمارے ملک کو بمباری سے تباہ کیا، انفرا اسٹرکچر ختم کیا اور اقوام و قبائل میں تفرقہ پیدا کیا۔‘
ان کتابوں میں طالبان کے حملوں میں مارے جانے والے ہزاروں عام شہریوں، جن میں خودکش حملے بھی شامل ہیں، کا ذکر برائے نام ہے، حالانکہ ان حملوں نے ملک بھر میں کئی سال تک خوف کا ماحول پیدا کیے رکھا۔
مہاجر فراحی دعویٰ کرتے ہیں کہ طالبان نے ’عام شہریوں اور بے گناہوں کی جان بچانے میں احتیاط برتی۔‘ وہ ان افغانوں پر تنقید کرتے ہیں جنہوں نے مغربی حمایت یافتہ پولیس سے تعاون کیا اور انہیں ’ملک پر دھبہ‘ قرار دیتے ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں موجودہ طالبان حکومت پر خواتین اور لڑکیوں کے خلاف وسیع پیمانے پر مظالم کا الزام لگاتی ہیں، جنہیں اقوام متحدہ نے ’جنس کی بنیاد پر امتیاز‘ قرار دیا ہے۔
اپنی 2023 میں شائع ہونے والی کتاب میں مہاجر فراحی دعویٰ کرتے ہیں کہ طالبان نے اسامہ بن لادن کے معاملے پر امریکہ سے مذاکرات کی کوشش کی، لیکن ان کے بقول یہ کوششیں ناکام رہیں۔ واضح رہے کہ واشنگٹن نے 11 ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد، جن میں تقریباً 3,000 اموات ہوئیں، اسامہ بن لادن کی گرفتاری یا موت کا مطالبہ کیا تھا۔
القاعدہ رہنما اسامہ بن لادن افغانستان میں مقیم تھے اور 2011 میں پاکستان میں امریکی کارروائی میں مارے گئے تھے۔
مہاجر فراحی اپنی کتاب کے انگریزی ایڈیشن میں لکھتے ہیں: ’یہ بات بالکل واضح تھی کہ امریکیوں نے پہلے ہی افغانستان پر قبضے کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔‘ اس کتاب کا ترجمہ پانچ زبانوں میں کیا جا چکا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کے مطابق 11 ستمبر کے حملوں کے بعد افغانوں نے سوچا تھا کہ ’اس کا ہمارے ملک سے کوئی تعلق نہیں ہو گا،‘ مگر جلد ہی اندازہ ہو گیا کہ افغانستان کو ’سزا‘ دی جا رہی ہے۔
طالبان تقریباً 20 سال تک ایک بین الاقوامی اتحاد کے خلاف جنگ لڑتے رہے۔ اس اتحاد کی قیادت امریکہ کر رہا تھا اور اس میں کل 38 ممالک شامل تھے۔ یہ اتحاد افغانستان کی جمہوری حکومت اور اس کی فوج کو سپورٹ کر رہا تھا۔
اس دوران دسیوں ہزار افغان اور تقریباً 6,000 غیر ملکی فوجی، جن میں 2,400 امریکی شامل تھے، مارے گئے۔
مہاجر فراحی کے نزدیک یہ جنگ مغرب کی طرف سے اپنی ثقافت اور نظریات دوسرے ممالک پر مسلط کرنے کی کوشش کی عکاس ہے۔
ان کی بے ربط ڈائری ایک طرف جنگ کے میدان کی یادوں پر مشتمل ہے، تو دوسری طرف ایسے اشتعال انگیز ابواب بھی شامل ہیں، جن میں امریکی ’خونخوار اژدھے‘ کے خلاف شدید تنقید کی گئی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’یہ کتاب وہ حقائق آشکار کرتی ہے جو پہلے کبھی نہیں بتائے گئے، کیونکہ میڈیا، خاص طور پر مغربی میڈیا نے جنگ کی ایک مختلف تصویر پیش کی۔‘
ان کے مطابق ’مجاہدین‘ نے، اگرچہ وہ کم وسائل رکھتے تھے، مگر اپنی یکجہتی اور خدا کی مدد سے فتح حاصل کی۔
خالد زدران کے مطابق طالبان کی نئی کتابوں میں کچھ ہی سوانح عمریاں ہیں، جو ایسے قارئین کو متوجہ کرتی ہیں جو جنگ کو ’اندر سے‘ سمجھنا چاہتے ہیں۔
ان کی پشتو کتاب کی ابتدائی دو ہزار کاپیاں جلد ہی فروخت ہو گئیں اور اب مزید ایک ہزار کاپیاں اور ایک دری زبان کا ترجمہ بھی زیرِ تکمیل ہے۔
کتاب کے کئی ابواب میں امریکی فوجی بوو برگڈاہل کا بھی ذکر ہے، جو پانچ سال تک حقانی نیٹ ورک کی قید میں رہے۔
وہ بیان کرتے ہیں کہ کس طرح انہوں نے افغانستان اور پاکستان کی سرحد کے ساتھ واقع پہاڑوں میں سفر کیے تاکہ اسے (یعنی امریکی فوجی کو) ایک چھپنے کی جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جا سکے، کس طرح اسے اسلام قبول کرنے کے لیے قائل کرنے کی کوششیں کی گئیں اور کس طرح اس کی امریکہ میں موجود گرل فرینڈ کے بارے میں گفتگو ہوتی رہی۔
دونوں کتابیں 2021 میں ختم ہوتی ہیں۔ اس سے پہلے وہ جنگجو جنہوں نے برسوں تک دور دراز پہاڑوں میں چھپ کر زندگی گزاری اور لڑائیاں لڑیں، اب وہی دفاتر میں بیٹھے ہیں۔
وہاں، ان کی جنگ اب سفارتی شکل اختیار کر چکی ہے اور طالبان اب اپنی حکومت کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کروانے کے لیے کوشاں ہیں۔
مہاجر فراحی نے کہا: ’جنگ اب ختم ہو چکی ہے اور ہم سب کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں، حتیٰ کہ ’خونخوار اژدھے‘ (یعنی امریکہ) کے ساتھ بھی۔‘