روسی وزیر دفاع آندرے بیلوسوف نے افغانستان سے ابھرنے والے دہشت گرد خطرات میں اضافے سے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جنگ زدہ ملک میں اس وقت 20 سے زائد شدت پسند گروہ سرگرم ہیں، جن میں 15 ہزار سے زائد جنگجو شامل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ وسطی ایشیائی ممالک کی سلامتی کے لیے براہِ راست خطرہ ہیں۔‘
یہ بات انہوں نے بدھ کو کرغیزستان کے دارالحکومت بشکیک میں منعقد اجتماعی سلامتی معاہدے کی تنظیم سی ایس ٹی او کے وزرائے دفاع کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ بیلوسوف نے واضح کیا کہ افغانستان میں سرگرم انتہا پسند گروہ اس خطے میں سب سے بڑا دہشت گردی کا خطرہ ہیں۔
آندرے بیلوسوف نے مغربی ممالک پر الزام لگایا کہ وہ ان کے ملک کو ’تزویراتی شکست‘ سے دوچار کرنے کی سازش کر رہے ہیں۔
انہوں نے خبردار کیا ہے کہ ان گروہوں کے ارکان ہمسایہ ممالک میں داخل ہو سکتے ہیں اور ان کا خطرہ اس سے بھی آگے تک پھیل سکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مشرقِ وسطیٰ میں عدم استحکام بھی وسطی ایشیا کی سکیورٹی صورت حال پر منفی اثر ڈال رہا ہے۔
روسی خبر رساں ایجنسی ’تاس‘ کے مطابق بیلوسوف نے وضاحت کی کہ ان گروہوں کے ارکان میں غیر ملکی جنگجو بھی شامل ہیں، جن میں بعض کا تعلق ان تنظیموں سے ہے جو ماضی میں مشرقِ وسطیٰ میں سرگرم تھیں۔
اگرچہ انہوں نے ان تنظیموں کے نام نہیں لیے، تاہم روس اور اس کے اتحادیوں کی تشویش خاص طور پر داعش تنظیم اور دیگر ایسی دہشت گرد جماعتوں پر مرکوز ہے جو خطے کے ممالک کے لیے براہِ راست خطرات پیدا کرتی ہیں۔
مغرب کی کشیدگی اور بڑھتا ہوا دباؤ
روسی وزیر دفاع آندرے بیلوسوف نے زور دے کر اس امر کا اعادہ کیا کہ اجتماعی سلامتی کے معاہدے کی تنظیم سی ایس ٹی او کے زیرِ اثر علاقوں میں عسکری اور سیاسی صورت حال انتہائی کشیدہ اور نازک ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ خطہ مختلف چیلنجز اور خطرات کا سامنا کر رہا ہے، جو مسلسل بڑھ رہے ہیں اور رکن ممالک کی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ بن چکے ہیں۔
بیلوسوف نے واضح کیا کہ تنظیم کے رکن ممالک کو درپیش مشکلات روز بروز پیچیدہ ہو رہی ہیں، جس کی وجہ عالمی سیاسی محاذ پر موجود کشیدگیاں اور علاقائی تنازعات ہیں۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اگر اس صورت حال کو فوری اور مؤثر طریقے سے سنبھالا نہ دیا گیا تو یہ خطہ طویل المدتی عدم استحکام کا شکار ہو سکتا ہے۔
ان کے مطابق مغربی طاقتیں نہ صرف ماسکو بلکہ اس کے اتحادیوں پر بھی مسلسل دباؤ ڈال رہی ہیں، خاص طور پر اجتماعی سلامتی کے معاہدے کی تنظیم کے اندر ان کی طاقت کو کمزور کرنے کے لیے مختلف حربے استعمال کر رہی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بیلوسوف نے کہا کہ یہ دباؤ مختلف سطحوں پر محسوس کیا جا رہا ہے، جس میں سیاسی، معاشی اور عسکری ذرائع شامل ہیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ روس اور اس کے اتحادیوں کو متحد ہو کر ان بیرونی دباؤ کا مقابلہ کرنا ہو گا تاکہ علاقائی سلامتی کو برقرار رکھا جا سکے اور تنظیم کی طاقت کو کمزور ہونے سے بچایا جا سکے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’مغرب اپنی کوششوں کو جاری رکھے ہوئے ہے تاکہ رکن ممالک میں عدم استحکام پیدا کرے اور ان پر سیاسی اور سکیورٹی کے حوالے سے دباؤ ڈالے‘، اور اس بات پر زور دیا کہ دہشت گردی کے خطرات، خاص طور پر افغانستان سے آنے والے، اب بھی شدت سے موجود ہیں۔
دوسری طرف، روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے گذشتہ سال دسمبر میں ماسکو میں تاجکستان کے صدر امام علی رحمان سے ملاقات کے دوران تصدیق کی کہ روس ’افغانستان سے اٹھنے والے سلامتی کے خطرات کے حوالے سے، جو وسطی ایشیا کے ممالک کو نشانہ بنا رہے ہیں، غیر جانبدار نہیں رہ سکتا۔‘
خطے کی حفاظت کے منصوبے
اسی سلسلے میں، اجتماعی سلامتی کے معاہدے کی تنظیم (سی ایس ٹی او) کے رکن ممالک اپنی سرحدی سکیورٹی کو مضبوط بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
انہوں نے تاجکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد کو مضبوط بنانے کے لیے ایک منصوبہ تیار کیا ہے جو تین مراحل پر مشتمل ہے اور پانچ سال تک جاری رہے گا، جس کا آغاز 2026 میں ہوگا۔
اس منصوبے میں اسلحہ اور عسکری ساز و سامان کی فراہمی بھی شامل ہے۔ اس تنظیم کے سیکرٹری جنرل، ایمانگالی تاسماغ مبیتوف، نے اس سال کے آغاز میں اعلان کیا تھا کہ تنظیم نے جنوبی ایشیا سے بڑھتے ہوئے سکیورٹی خطرات کے پیش نظر اس منصوبے پر عمل درآمد کی تیاری شروع کر دی ہے۔
تنظیم نے اگست 2021 میں طالبان کے افغانستان میں اقتدار سنبھالنے کے بعد تاجکستان کی سرزمین پر متعدد فوجی مشقیں بھی کی ہیں۔
اجتماعی سلامتی کے معاہدے کی تنظیم (CSTO) جو 2002 میں قائم ہوئی تھی، اس کی رکن ملکوں میں روس، بیلاروس، قازقستان، قرغزستان، تاجکستان اور آرمینیا شامل ہیں۔ تاہم آرمینیا نے حال ہی میں تنظیم کی سرگرمیوں میں اپنی فعال شرکت معطل کرنے کا اعلان کیا ہے، جو بعض ارکان، خاص طور پر روس کے ساتھ تنازعات کی وجہ سے کیا گیا ہے۔
روسی موقف میں طالبان کے حوالے سے تبدیلی؟
قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ روس کی اعلیٰ عدالت نے گذشتہ اپریل میں طالبان کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کی درجہ بندی معطل کرنے کی منظوری دی، جو کہ روسی پراسیکیوشن کی درخواست پر کی گئی تھی۔
یہ اقدام روس کے طالبان کے حوالے سے آہستہ آہستہ بدلتے ہوئے رویے کی علامت سمجھا جا رہا ہے، اگرچہ روس اب بھی اس بات پر تشویش ہے کہ افغانستان انتہاپسند گروہوں کے لیے ایک سازگار ماحول بن سکتا ہے جو خطے کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔