سی پیک کو افغانستان تک پھیلانا کیا انڈیا کو تنہا کرنے کا منصوبہ؟

پاکستانی، چینی اور افغان وزرائے خارجہ نے ایک ملاقات میں سی پیک کو افغانستان تک توسیع دینے پر اتفاق کیا ہے، جسے مبصرین خطے میں ایک اہم پیش رفت قرار دے رہے ہیں۔

پاکستان کے وزیر خارجہ و نائب وزیر اعظم اسحٰق ڈار (دائیں) اور افغانستان کے عبوری وزیر خارجہ امیر خان متقی (بائیں) 21 مئی 2025 کو بیجنگ میں ملاقات کے موقعے پر (پاکستانی دفتر خارجہ ایکس اکاؤنٹ)

پاکستانی، چینی اور افغان وزرائے خارجہ نے 21 مئی کو بیجنگ میں ہونے والی غیر رسمی سہ فریقی ملاقات میں چین-پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کو افغانستان تک توسیع دینے پر اتفاق کیا ہے، جسے مبصرین خطے میں ایک اہم پیش رفت قرار دے رہے ہیں۔

یہ سہ فریقی ملاقات ایک ایسے وقت میں ہوئی، جب پہلگام واقعے کے بعد انڈیا اور پاکستان کے مابین پیدا ہونے والی کشیدگی جنگ کے دہانے تک پہنچ چکی تھی اور جس میں 10 مئی کو ہونے والے سیزفائر کے بعد ٹھہراؤ آیا، تاہم دونوں اطراف سے تند و تیز بیانات کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

اجلاس میں پاکستان کے وزیر خارجہ و نائب وزیر اعظم اسحٰق ڈار، افغانستان کے عبوری وزیر خارجہ امیر خان متقی اور چین کے وزیر خارجہ وانگ یی نے شرکت کی۔

چینی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کیے گئے اعلامیے میں سی پیک کے حوالے سے بتایا گیا: ’بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے (چین کو وسطی ایشیا ممالک سے جوڑنے کے منصوبہ) کو مزید مضبوط کرنے کے لیے سی پیک کی افغانستان تک توسیع کے فروغ پر بات چیت کی گئی۔‘

سی پیک چین کا پاکستان میں تقریباً 62 ارب ڈالر کا منصوبہ ہے، جس کے تحت بیجنگ ریل، روڈ اور سمندری راستوں کے ذریعے خلیجی ممالک، یورپ اور وسطی ایشیا کے ممالک کے درمیان تجارت کو آسان بنانا چاہتا ہے۔ 

سی پیک منصوبے کے تحت پاکستان میں سڑکوں اور ریلوے نظام سمیت مختلف معاشی زونز بنائیں جائے گے، جس سے چین سمیت پاکستان کو معاشی طور پر فائدہ حاصل ہوگا۔ یہ منصوبہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا حصہ ہے۔ 

مبصرین انڈیا اور پاکستان کے مابین حالیہ کشیدگی کے تناظر میں چین، پاکستان اور افغانستان کے سہ فریقی اجلاس میں سی پیک کی افغانستان تک توسیع کو نہایت اہم سمجھتے ہیں۔

چین نے انڈیا کے ساتھ کشیدگی میں پاکستان کی مکمل حمایت کا اظہار کیا تھا۔

دوسری جانب انڈیا اور چین کے مابین ارو ناچل پردیش کے علاقوں پر تنازع ہے۔ اس حوالے سے چین اور انڈیا میں 1962 میں جنگ بھی ہوئی تھی، جس میں انڈیا کو شکست ہوئی تھی اور بعض علاقے چین کے قبضے میں آ گئے تھے۔ 

اگرچہ انڈیا اور چین کے مابین سالانہ تقریباً 118 ارب ڈالر کی تجارت ہوتی ہے، تاہم 2020 میں دونوں ملکوں کے درمیان سرحدی کشیدگی کے بعد نئی دہلی نے چین کی انڈیا میں انویسٹمنٹس پر کچھ پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔

چین کی جانب سے تقریباً 93 ارب ڈالر کا سامان، جس میں زیادہ تر الیکٹرانک سامان شامل ہیں، انڈیا برآمد کیا جاتا ہے جبکہ بیجنگ تقریباً 18 ارب ڈالر کی اشیا نئی دہلی سے درآمد کرتا ہے۔

سی پیک کی افغانستان تک توسیع سے انڈیا تنہا رہ جائے گا؟

انڈپینڈنٹ اردو نے اس سوال کا جواب جاننے کے لیے مختلف مبصرین سے گفتگو کی۔

شفوان البنا یونیوسٹی آف انڈونیشیا میں معاشیات کے پروفیسر ہیں اور اسی یونیورسٹی کے سینٹر برائے ایسوسی ایشن آف ساؤتھ ایسٹ ایشین سٹیڈیز کے سابق سیکرٹری رہے ہیں۔ 

انہوں نے جنوبی ایشیائی ممالک کے سیاسی معاشی تعلقات پر مختلف تحقیقی مقالے بھی لکھ رکھے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ انہیں نہیں لگتا کہ چین انڈیا کو خصوصی طور پر الگ رکھنا چاہتا ہے۔

شفوان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سی پیک کی افغانستان تک توسیع کا مقصد چین کی جانب سے اس خطے میں امریکہ کے اثر و رسوخ کو کم کرنا ہے۔ 

بقول شفوان: ’یہ اقدام انڈیا کو تنہا کرنے سے زیادہ امریکہ کے اثر و رسوخ کم کرنے کے لیے اس خطے میں اپنے نیٹ ورک کو بڑھانا ہے۔‘

تاہم ان کا کہنا تھا کہ چین کی ترجیحات یہی ہیں کہ وہ ان ممالک میں اپنے تجارتی راستے اور معاشی تعلقات بڑھائے، جنہیں چین کے ساتھ تجارتی تعلقات بنانے پر امریکہ کی جانب سے دباؤ کا خطرہ نہیں ہے۔ 

شفوان نے بتایا: ’میرے خیال میں چین اب بھی انڈیا کو تجارتی پارٹنر سمجھتا ہے لیکن ساتھ ہی ممکنہ خطرے کو کم کرنے کے لیے سمجھتا ہے کہ انڈیا کے ساتھ اگر تجارت ہے تو زبردست لیکن اگر نہیں ہے تو کوئی مسئلہ نہیں۔‘

یاد رہے کہ انڈیا اور پاکستان کشیدگی کے بعد انڈین وزیر خارجہ جے شنکر نے افغانستان کے عبوری وزیر خارجہ امیر خان متقی سے ٹیلفونک گفتگو کی تھی جس میں انڈیا کی وزارت خارجہ کے مطابق امیر خان متقی نے پہلگام واقعے کی مذمت کی تھی۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ٹائمز آف انڈیا کے مطابق یہ 1999 کے بعد سفارتی سطح پر انڈیا کا افغان طالبان کے ساتھ پہلا رابطہ تھا جبکہ اسی نیوز ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ایک تجزیاتی کالم کے مطابق انڈیا اب افغان طالبان کو قریب لانے کی کوشش کر رہا ہے۔ 

کالم کے مطابق: ’چین 1990 سے افغانستان میں دلچپسی لے رہا ہے اور اب انڈیا افغانستان کو پاکستان کے خلاف بطور پراکسی استعمال کرنے کی کوشش میں ہے جبکہ طالبان بھی اس سے پاکستان پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

ڈاکٹر کریم خان ماہر اقتصادیات اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس میں فیکلٹی آف سوشل سائنسز کے ڈین ہیں، جنہوں نے سی پیک پر کام بھی کیا ہے۔ 

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں یہ شامل ہے کہ پاکستان اور افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کو سی پیک کا حصہ بنایا جائے گا اور اس منصوبے کا مقصد بھی چین کے وسطی ایشیائی ممالک، خلیجی ممالک اور مغربی افریقہ تک رسائی ہے۔ 

کریم خان نے بتایا: ’میرا نہیں خیال کہ سی پیک کا افغانستان تک توسیع دینا انڈیا کو تنہا کرنے کا کوئی منصوبہ ہے کیونکہ سی پیک کی توسیع پہلے سے افغانستان کے لیے پلان تھی۔‘

تاہم کریم خان کے خیال میں انڈیا سی پیک کا حصہ نہیں بننا چاہتا اور اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انڈیا اپنا معاشی نقصان چاہتا ہے بلکہ وہ اپنی جیو سٹریٹجک لوکیشن کی وجہ سے ایسا نہیں چاہتا۔

انہوں نے بتایا: ’انڈیا کے چین اور پاکستان دونوں کے ساتھ سرحدوں پر معاملات ٹھیک نہیں ہیں اور اسی وجہ سے انڈیا نہیں چاہے گا کہ سی پیک کا حصہ بنے۔‘

کیا سی پیک کی افغانستان تک توسیع میں پاکستان اور امریکہ کے تعلقات خراب ہو سکتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں کریم خان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور چین کے تعلقات بہت بہتر ہیں اور انہیں ایک دوسرے کی ضرورت ہے۔ 

تاہم دوسری طرف امریکہ اور پاکستان کے مابین تعلقات مستحکم نہیں رہے کیونکہ جب امریکہ کو پاکستان کی ضرورت پڑی تو انہوں نے ہاتھ دیا ہے اور یہ ضرورت جیو سٹریٹجک لوکیشن کی وجہ سے ہے۔ 

کریم خان نے بتایا: ’میرا نہیں خیال کہ سی پیک یا اس کی افغانستان تک توسیع میں امریکہ کو کوئی اعتراض ہوگا اور امریکہ اس پر اعتراض کر بھی سکتا ہے لیکن اس سے پاکستان اور چین کے تعلقات خراب نہیں ہوسکتے۔‘

یاد رہے کہ انڈیا نے ماضی میں سی پیک منصوبے میں کسی بھی تیسرے ملک کی شمولیت کی شدید مخالفت کی تھی اور اس حوالے سے جولائی 2022 میں انڈین وزارت خارجہ کی جانب سے بیان بھی جاری کیا گیا تھا۔ 

اس وقت جاری بیان میں بتایا گیا تھا: ’انڈیا کی جانب سے سی پیک منصوبے میں کسی تیسرے فریق کی شمولیت کی شدید مخالفت کی جائے گی کیونکہ سی پیک کے بعض منصوبے متنازع علاقوں میں بنائے جانے کا منصوبہ ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا