2013 کے وسط میں شروع کی گئی چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کو بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو کے فلیگ شپ منصوبے کے طور پر بلوچستان میں ایک بڑے ترقیاتی گیم چینجر کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ تاہم ایک دہائی گزرنے کے باوجود ملک میں سیاسی یکسوئی کی کمی اور بلوچستان میں علیحدگی پسند تنظیموں کی کارروائیوں کی وجہ سے کوئی بڑی معاشی تبدیلی یا خوشحالی دیکھنے کو نہیں ملی۔
26 اگست کو بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے شورش پسندوں نے بلوچستان کے 10 اضلاع میں حملہ کرکے تقریباً 70 افراد کو مار دیا۔ یہ تشدد کی نئی لہر بلوچ قوم کے ایک قبیلے کے سربراہ اور مختلف اوقات میں اہم سیاسی سرکاری عہدوں پر رہنے والے نواب اکبر خان بگٹی کی ہلاکت کی 18 ویں برسی کے موقع پر پیش آئی۔
بیک وقت اور مربوط حملوں کے دوران بی ایل اے نے بلوچستان کی کئی اہم مرکزی شاہراہوں کو بند کر دیا تاکہ سکیورٹی فورسز کو پہنچنے والی مدد کو روکا جا سکے اور میڈیا میں یہ تاثر پھیلایا جا سکے کہ پاکستانی حکومت کی رٹ کمزور ہو گئی ہے۔
بلوچ علیحدگی پسندوں کے حملوں سے پیدا ہونے والی عدم تحفظ کی فضا نے سی پیک منصوبوں اور بلوچستان کی ترقی کو متاثر کیا ہے۔ اس کے علاوہ چینی کمپنیوں کے ساتھ پاکستان کے وعدے، بیوروکریسی کی ناکامی، مالیاتی بحران اور غیر یقینی سیاسی ماحول نے بھی ترقی کی رفتار کو سست کیا ہے۔
جون میں کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کے بین الاقوامی شعبے کی مرکزی کمیٹی کے وزیر، لیو جیان چاؤ نے پاکستان کو خبردار کیا تھا کہ ’سکیورٹی کے خطرات چین پاکستان اقتصادی راہداری کے تعاون میں بنیادی خطرات ہیں۔‘
بلوچستان میں چین مخالفت
بلوچ مسلح تنظیموں نے چین پاکستان اقتصادی راہداری کو نقصان پہنچانے کے لیے پاکستان میں چینی منصوبوں اور ان پر کام کرنے والوں کو نشانہ بنایا ہے۔ تاہم پاکستان میں چینی مفادات کو نشانہ بنانے والے تمام گروہوں میں بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے خودکش دستے، مجید بریگیڈ نے سب سے زیادہ حملے کیے ہیں۔
اسلم بلوچ نے 2018 میں بی ایل اے کی قیادت سنبھالنے کے بعد مجید بریگیڈ کے تحت خودکش حملوں کا آغاز کیا تھا، جن سے بین الاقوامی توجہ اور بلوچوں کے سماجی و اقتصادی مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے ایک سٹریٹجک تبدیلی کا آغاز ہوا۔
مجید بریگیڈ نے 2018 میں چاغی ضلع میں چین پاکستان اقتصادی راہداری پر کام کرنے والے چینی انجینئروں کی بس کو نشانہ بناکر حملوں کا تسلسل دوبارہ شروع کیا۔ بی ایل اے نے 2018 میں کراچی میں چینی قونصل خانے، 2019 میں گوادر میں پرل کانٹی نینٹل ہوٹل اور 2022 میں کراچی یونیورسٹی کے کنفوشس ڈیپارٹمنٹ پر خودکش حملے کیے۔
جواب میں پاکستان نے جولائی 2024 میں مجید بریگیڈ کو دہشت گرد گروپ کے طور پر کالعدم قرار دیا۔
بی ایل اے، جس کی قیادت بشیر زیب کر رہے ہیں، بلوچستان میں سب سے زیادہ منظم باغی گروپوں میں سے ایک ہے، جس کے جنگجوؤں کی تعداد 3500 سے 4000 ہے۔ حالیہ برسوں کے دوران بی ایل اے نے متعدد سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا استعمال کرتے ہوئے حملوں کا دعویٰ کرنے، علیحدگی پسندانہ بیانیے کو فروغ دینے، انفوگرافکس، اور ویڈیو بیانات کا استعمال کرتے ہوئے اپنی مواصلاتی جنگی صلاحیتوں کو نمایاں کیا ہے۔
2017 میں بی ایل اے دو دھڑوں میں تقسیم ہو گئی۔ بی ایل اے کے بانی حیربیار مری نے، جو لندن میں خود ساختہ جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں، اسلم بلوچ اور بشیر زیب کو سائیڈ لائن کیا۔ اس کے بعد زیادہ تر مقامی کمانڈروں نے اسلم بلوچ کی حمایت کی۔
اس کے بعد حیربیار کا دھڑا بی ایل اے-آزاد کے طور پر کام کرتا ہے جبکہ اسلم کا دھڑا خود کو بی ایل اے جئیند کے طور پر شناخت کراتا ہے۔ اسلم دسمبر 2018 میں جنوبی افغانستان کے صوبہ قندھار میں ایک خودکش بم دھماکے میں مارے گئے، جس کے بعد زیب بی ایل اے کا نیا کمانڈر بن گئے۔
ماضی میں بی ایل اے 2000 میں ابھری، اور بلوچ رہنما نواب اکبر بگٹی کے قتل کے بعد اس کی کارروائیاں مزید شدت اختیار کر گئیں۔ بی ایل اے نے قبائلی نظام اور شخصیات کے اختلافات پر قابو پا کر بلوچ باغیوں کو متحد کرنے کی کوشش کی۔
بی ایل اے کا پروپیگنڈہ اور چین پاکستان اقتصادی راہداری
بی ایل اے اپنے پروپیگنڈا مواد میں چین پاکستان اقتصادی راہداری کو ایک نوآبادیاتی منصوبے کے طور پر پیش کرتا ہے اور اس کا موازنہ برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی سے کرتا ہے۔ پاکستان میں متعدد چینی شہریوں اور منصوبوں کو نشانہ بنانے کے بعد، بی ایل اے نے بیجنگ کو انتباہ جاری کیا ہے کہ وہ اپنے ترقیاتی منصوبوں کو صوبے سے ختم کرے۔
بی ایل اے کا الزام ہے کہ سی پیک چین کو گوادر کی گہرے سمندری بندرگاہ کے ذریعے بلوچستان کے معدنی وسائل اور سٹریٹجک ساحلی پٹی پر کنٹرول دے گا۔ بی ایل اے چین پر یہ الزام بھی عائد کرتا ہے کہ وہ اس منصوبے کے ذریعے صوبے کی معاشی پسماندگی کے احساس کو بڑھا رہا ہے۔
بلوچستان میں عدم تحفظ اور پسماندگی کا گٹھ جوڑ
جنوبی اور وسطی ایشیا کے سنگم پر واقع بلوچستان ایک اہم جغرافیائی علاقہ ہے۔ اگر صوبے کی پسماندگی کے مسائل نظرانداز کیے جائیں تو صوبے کے مسائل مزید بڑھ سکتے ہیں۔ سونے، تانبے، چونے کے پتھر، ٹائٹینیم، اور لوہے سے مالا مال ہونے اور پاکستان کی جغرافیائی زمین کا 44 فیصد حصہ ہونے کے باوجود، بلوچستان پاکستان کا سب سے غریب اور کم ترقی یافتہ صوبہ ہے۔
پاکستان کے سب سے کم ترقی یافتہ اضلاع بلوچستان میں واقع ہیں اور صوبے کی تقریباً 41 فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ بلوچ مسلح گروہوں نے بھی ترقی کو نقصان پہنچایا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بی ایل اے اور دیگر باغی گروپوں نے گیس پائپ لائنوں، ریلوے ٹریکس، بجلی اور سیلولر ٹاورز کے ساتھ ساتھ تیل اور گیس تلاش کرنے والی کمپنیوں کے عملے، سڑکوں اور دیگر تعمیراتی منصوبوں کو بھی نشانہ بنایا ہے۔ بدامنی کی وجہ سے ایران پاکستان گیس پائپ لائن کی تعمیر میں بھی تاخیر ہوئی ہے۔
اگرچہ ترقی مقامی تنازعات کے حل کے لیے اہم سمجھی جاتی ہے، بلوچستان میں اس کے نتائج مختلف ہیں۔ گوادر بندرگاہ کی ترقی اور مواصلاتی ڈھانچے میں بہتری کے باوجود، بلوچ علیحدگی پسند بلوچستان میں اقتصادی منصوبوں کو نقصان پہنچاتے ہیں اور اسے ٹرانزٹ ٹریڈ کے ایک علاقائی مرکز میں تبدیل کرنے کی کوششوں میں رکاوٹ ڈالتے ہیں۔
بلوچستان میں مسلح تنظیموں کو منصوبوں سے دور رکھنے کے نقصانات
بی ایل اے اور دیگر بلوچ مسلح تنظیموں کا بنیادی تنازع پاکستانی ریاست کے ساتھ ہے۔ تاہم، بلوچستان میں چینی منصوبوں اور شہریوں پر حملے کرکے، بلوچ مسلح تنظیموں نے بلوچستان کی پسماندگی کو مزید آگے بڑھایا ہے۔ بلوچستان کا تنازع ریاستی اور غیر ریاستی تشدد کے دائمی چکروں کی وجہ سے ضائع ہونے والے معاشی مواقع کی ایک کہانی ہے۔
پاکستانی ریاست کی جانب سے تنازع کو غلط طریقے سے سنبھالنے نے بلوچوں کی ایک پوری نسل کو ریاست سے متنفر کر دیا ہے، جس سے بلوچ قوم پرستی کی مزید بنیاد پرست شکلیں جنم لے رہی ہیں۔
اس وقت، باغیوں کے سخت رویوں نے تنازعات کے حل کی ممکنہ راہیں بھی ختم کر دی ہیں، اور بدقسمتی سے، چین خود کو اس مخالف مساوات کے دائرے میں پاتا ہے، جس میں کمی کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔
یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کالم نگار سنگاپور کے ایس راجارتنم سکول آف انٹرنیشنل سٹڈیز میں سینئر ایسوسی ایٹ فیلو ہیں۔