ہاتھوں سے لگی گرہیں دانتوں سے بھی نہ کھلیں تو کیا کرنا ہوگا۔ الجھی ہوئی گتھی سلجھانے کے لیے کیا ترکیب ہو کہ ڈور ریشم کی ہو جائے اور گنجلک کھلتے چلے جائیں۔ یہ تب ہو گا جب ہاتھ سلجھاؤ کا ہنر جانیں اور کریں وہ جو فن میں یکتا ہو۔
گذشتہ چند دنوں میں کئی ایک اہم پیش رفت ہوئی ہیں۔ پاکستان اور امریکہ کے مابین سرد روابط قدرے گرم ہوئے ہیں، چین کے ساتھ تعلقات تاریخی سطح پر ہیں۔ اسی دوران اسلام آباد میں سینٹکام چیف جنرل کوریلا کی ایک کانفرنس میں آمد ہوئی۔ جنرل کوریلا وہی شخصیت ہیں جنہوں نے حال ہی میں ایک کمیٹی اجلاس میں پاکستان کے ساتھ سٹریٹیجک تعلقات کو انڈیا پر فوقیت دی۔
یوں سمجھیے جنرل کوریلا امریکہ کی اسٹیبلشمنٹ ہیں اور اس موافق وہاں مقتدرہ بظاہر پاکستان جتنی اہم نظر نہیں آتی مگر درحقیقت پاکستان سے زیادہ سٹریٹیجک معاملات کی فیصلہ سازی میں اہمیت رکھتی ہے۔
فیلڈ مارشل عاصم منیر کے حالیہ ’کیبنٹ روم‘ ظہرانے اور صدر ٹرمپ سے غیر معمولی ملاقات کے بعد یوں معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان نئے سٹریٹیجک دور کا آغاز ہوا ہے۔ یہاں یہ امر اہم ہے کہ یہ تعلقات ہر دہائی میں از سر نو ترتیب پاتے ہیں۔ ماضی میں اس کی مثالیں ہمیں جنرل ایوب، جنرل ضیا اور جنرل مشرف کے ادوار میں نظر آتی ہیں مگر ان میں سے دو ادوار پاکستان افغانستان کے تناظر میں اہم رہے جبکہ جنرل ایوب کا دور امریکی پالیسیوں کی باضابطہ قبولیت کا آغاز تھا۔
آرمی چیف کے دورے کے بعد تاحال یہ غیر واضح ہے کہ پاکستان کے امریکہ سے تعلقات کی نہج اس بار کیا ہے البتہ یہ اہم ہے کہ پاکستان اس خطے میں ایک بار پھر اہمیت اختیار کر گیا ہے۔
وزیر خارجہ کا امریکہ کا دورہ جبکہ ان تواریخ میں آرمی چیف کا دورہ چین کسی طور غیر اہم نہیں۔ پاکستان امریکہ سے تجارتی ٹیرف کم کرانے کی جدوجہد میں ہے تو چین سے خطے میں امن اور اقتصادی راہداری کی بحالی کی کوششیں بھی جاری ہیں۔ پاکستان امریکہ کو آٹھ کھرب ڈالرز لاگت کے معدنی ذخائر کی ’پر کشش‘ پیشکش کر رہا ہے اور چین کو گوادر کا پرامن اقتصادی راستہ دینے کا بھی خواہش مند ہے۔
پاکستان امریکہ اور ایران کے درمیان پل کا کردار ادا کرنے کے جرات بھی کر رہا ہے تو دوسری جانب امریکہ اور چین کے مابین یاد رفتہ کو بحال کرتے ہوئے اپنا کردار ادا کرنے کی سعی میں ہے۔ یوں سمجھیے کہ خواہشوں کی ایک پٹاری ہمارے ہاتھ میں ہے اور کیوں نہ ہو ہم نے ایک ہی رات میں خطے کے ابھرتے چوہدری یعنی انڈیا کے تسلط کے خواب کو توڑا ہے۔ البتہ یہ لا حاصل کوشش نہیں کہ پٹاری میں موجود خواہشوں کو ایک ایک کر کے تعبیر کیا جائے ہاں مگر اس کے لیے آئیڈیل امن کا قیام ایک کٹھن امتحان بن چکا ہے۔
پاکستان کو دو صوبوں بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں امن حاصل کرنا ہو گا اور یہی وہ نازک موڑ ہے جہاں اس وقت ریاست آ کھڑی ہوئی ہے۔ بلوچستان میں جاری عرصہ دراز کی پراکسی واراپنے پنجے گاڑھ چکی ہے، تو خیبر پختونخوا میں جاری لڑائی گلی محلے تک پہنچ رہی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بلوچستان میں پراکسیز نقب لگا چکی ہیں جبکہ پختونخوا میں ایک طرف فتنہ الخوارج سے نفرت اور دوسری طرف امن کی خواہش بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ اور اس کے بیچ میں حائل ہیں وہ قوتیں جو اپنی مقبولیت اور سیاسی مفاد کی خاطر حالات کا فائدہ اٹھا سکتی ہے۔
ریاست اپنے مقاصد کے حصول کے لیے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کی کوشش کرتی ہے تو عوام میں چھپے دشمن دستانے پہنے ہاتھ کاٹنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ جنوبی پانچ اضلاع دہشت گردوں کے قابو میں ہیں تو دیگر اضلاع میں عمائدین اور صوبے کا وزیر اعلیٰ ’گڈ طالبان‘ کے الزامات لگا رہے ہیں۔ امن کی خواہش ریاست کی بھی ہے اور صوبے کے عوام کی بھی مگر کاروائی کے طریقہ کار پر اعتراض شدید تر ہے۔ حال ہی میں خیبر ایجنسی میں ممکنہ آپریشن نے وزیر داخلہ اور وزیراعلیٰ کے درمیان سماجی پلیٹ فارم پر نا خوشگوار مکالمے کا آغاز کیا جو اختلافات اور عوامی جگ ہنسائی کا سبب بنا۔
ریاست امن کی خواہش کو بزور بازو آزمائے مگر یاد رکھے کہ وہاں موجود عوامی جذبات کیا ہیں ذرا سی غلطی کسی بڑے نقصان اور رائے عامہ کی مخالفت کاسبب بن سکتی ہے۔ ریاست کو عوامی رائے ہموار کرنے کے لیے وہاں منتخب حکومت، سیاسی جماعتوں اور قبائلی عمائد ین کے ساتھ مکالمہ کرنا ہو گا۔
حال ہی میں منعقدہ قومی جرگے کے عمائدین نے جن 28 نکات پر متوجہ کیا اس پر ریاست کو غور کرنا ہو گا جبکہ کسی اور ’پراکسی وار‘ کے خدشات کو ختم کیے بغیر آگے نہیں بڑھا جا سکتا۔
ریاست بلوچستان جیسی ایک اور صورت حال کی متحمل نہیں ہو سکتی اور ناں ہی امن کے بغیر دنیا سے کیے گئے اقتصادی معاہدوں پر عمل درآمد ہو سکتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ بدامنی کے جس خدشے پر دہائیوں پہلے پاکستان کھڑا تھا وہ ایک بار پھر خوفناک حقیقت بن کر سامنے آ رہا ہے۔ مجھے پنجابی کہاوت رہ رہ کر یاد آ رہی ہے:
توتیا من موتیا
توں اوس گلی نہ جا
ایس گلی دے جٹ برے پیندے پھائیاں پا
(میرے پیارے طوطے
اس گلی میں نہ جا
اس گلے کے جاٹ تجھے پھندے سے لٹکا لیں گے)
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔