ہیپاٹائٹس سے آگاہی کے عالمی دن پر عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے پاکستان میں ہیپاٹائٹس بی اور سی کے پھیلاؤ پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے فوری اقدامات کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
ادارے کے مطابق پاکستان دنیا بھر میں ہیپاٹائٹس سی کے سب سے زیادہ متاثرہ مریضوں والا ملک ہے، جہاں چھ کروڑ عالمی کیسز میں سے ایک کروڑ صرف پاکستان میں موجود ہیں، جبکہ 38 لاکھ افراد ہیپاٹائٹس بی کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔
تشویش ناک بات یہ ہے کہ ان میں سے صرف 25 سے 30 فیصد افراد ہی اپنی بیماری سے واقف ہیں، جس کے باعث وہ بروقت اور مؤثر علاج سے محروم رہ جاتے ہیں۔
ہیپاٹائٹس سے آگاہی کے عالمی دن کی منابست سے صدرآصف علی زرداری نے پیغام میں کہا کہ یہ مرض عوام کی صحت کے لیے شدید خطرہ ہے کیونکہ لاکھوں افراد تاخیر سے تشخیص، آگاہی نہ ہونے اورصحت کی ناکافی سہولیات کے باعث اس کا شکار ہو رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں جامع حکمت عملیوں پرعمل درآمد کرنا چاہیے جو بڑے پیمانے پر آگاہی مہم، موثر ویکسینیشن اور بروقت تشخیص اورعلاج پر مشتمل ہو۔
اس موقعے پر اپنے پیغام میں وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ہیپاٹائٹس معاشرے کے تمام طبقات کے لیے خطرہ ہے۔ انہوں نے ہیپاٹائٹس سے پاک ملک کی تعمیر کے لیے اپنی اجتماعی ذمہ داری کا اعادہ کیا ہے۔
’ہمارے ہیلتھ کیئر پروفیشنلز، محققین، اور فرنٹ لائن ورکرز انتھک محنت کر رہے ہیں، اور انہیں پوری کمیونٹی کے تعاون کی ضرورت ہے۔ پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جو عالمی ہیپاٹائٹس سی کے مرض میں نمایاں ہیں۔ وائرل ہیپاٹائٹس صحت عامہ کے عالمی چیلنجوں میں سے ایک ہے۔ ہیپاٹائٹس بی یا سی سے متاثر ہونے والے افراد کی ایک بڑی تعداد غیر تشخیص شدہ اور لا علاج رہتی ہے۔ جب کہ ہیپاٹائٹس معاشرے کے تمام طبقات کے لیے خطرہ ہے، بعض آبادیوں کو زیادہ خطرہ رہتا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عالمی ادارہ صحت نے عالمی تھیم ’چلو اسے آسان بنائیں‘ کے تحت دنیا بھر کی حکومتوں اور صحت حکام پر زور دیا ہے کہ وہ ہیپاٹائٹس سے بچاؤ، تشخیص اور علاج کی سہولیات کو قومی صحت نظام میں شامل کریں اور ان میں سادگی، وسعت اور یکجائی کو فروغ دیں۔ اس میں ویکسینیشن، محفوظ انجیکشن کے طریقے، نقصان میں کمی کے اقدامات، اور بالخصوص ٹیسٹنگ و علاج شامل ہیں۔
ادارے کا ہدف ہے کہ 2030 تک ہیپاٹائٹس کا خاتمہ بطورِ مسئلۂ صحتِ عامہ ممکن ہو سکے۔
پاکستان میں عالمی ادارہ صحت کے نمائندے ڈاکٹر داپنگ لو نے کہا: ’ڈبلیو ایچ او پاکستان کے ساتھ مل کر ہیپاٹائٹس کے خلاف اس جدوجہد میں مکمل تعاون جاری رکھے گا۔ ہماری کوشش ہے کہ روک تھام، بروقت تشخیص اور علاج کے اقدامات کو مضبوط بنایا جائے تاکہ ہم کمزور طبقوں کی حفاظت کر سکیں اور کوئی بھی پیچھے نہ رہ جائے۔‘
عالمی ادارہ صحت نے وزیراعظم پاکستان کے قومی پروگرام کی بھی مکمل حمایت کا اعادہ کیا، جس کا مقصد ہے کہ 2027 تک 12 سال یا اس سے زائد عمر کے 50 فیصد اہل افراد (تقریباً آٹھ کروڑ 25 لاکھ افراد) کی ٹیسٹنگ کی جائے اور 50 لاکھ متاثرہ افراد کا علاج کیا جائے۔
پاکستان میں ہیپاٹائٹس پھیلنے کی بڑی وجوہات میں غیر محفوظ انتقال خون، غیر منظم نجی بلڈ بینکس، پرانی اور غیر جراثیم کش سرنجز و آلات کا دوبارہ استعمال، غیر محفوظ جراحی و دندان سازی کے طریقے، حجام کی دکانوں پر استعمال ہونے والے آلات اور باڈی پئرسنگ اور ٹیٹو وغیرہ شامل ہیں۔
عالمی منظرنامہ
دنیا بھر میں وائرل ہیپاٹائٹس ہر سال 13 لاکھ افراد کی جان لے لیتا ہے، جن میں اکثریت کی موت جگر کے کینسر یا سروسس کے باعث ہوتی ہے، یعنی روزانہ تقریباً تین ہزار پانچ سو اموات۔
عالمی ادارۂ صحت نے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ وہ نوزائیدہ بچوں کی پیدائش کے 24 گھنٹوں کے اندر ہیپاٹائٹس بی سے تحفظ کے لیے ویکسینیشن، ہر فرد تک تشخیص اور علاج کی رسائی، اور سائنسی بنیادوں پر رہنمائی فراہم کرتا رہے گا، قطع نظر اس کے کہ وہ کہاں رہتے ہیں یا ان کی شناخت کیا ہے۔
عالمی ادارۂ صحت کی مشرقی بحیرۂ روم کے لیے ریجنل ڈائریکٹر ڈاکٹر حنان بلخی نے ایک پیغام میں امید ظاہر کی کہ عالمی یومِ ہیپاٹائٹس کے موقعے پر وہ اس عزم کی تجدید کرتے ہیں کہ 2030 تک وائرل ہیپاٹائٹس کو ایک صحت عامہ کے خطرے کے طور پر ختم کر دیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان چیلنجز کے باوجود، وہ ہیپاٹائٹس سی کے خاتمے میں عالمی سطح پر پیش رفت کی قیادت کر رہے ہیں۔
مصر نے عالمی ادارۂ صحت (WHO) کا ’گولڈ ٹئیر سٹیٹس‘ حاصل کر لیا ہے، اور 2018 سے اب تک ہیپاٹائٹس سی سے ہونے والی اموات میں 35 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں حکومت ایسی صلاحیت پیدا کر رہی ہے کہ وہ 2027 تک ہیپاٹائٹس سی سے متاثرہ کم از کم آدھی آبادی، تقریباً 50 لاکھ افراد کا علاج کر سکے۔
’میں حکومتوں اور شراکت داروں سے پُرزور اپیل کرتی ہوں کہ وہ مشترکہ اقدامات کو تیز کریں اور ان کی تجدید کریں تاکہ ہمارے خطے میں ہیپاٹائٹس کے خاتمے کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کیا جا سکے۔ ہم مل کر ہیپاٹائٹس کا خاتمہ کر سکتے ہیں اور قیمتی جانیں بچا سکتے ہیں۔‘