اردن اور متحدہ عرب امارات نے غزہ کی پٹی میں طیاروں سے اسے وقت امداد گرائی ہے جب محصور علاقے میں انسانی بحران مزید سنگین ہوتا جا رہا ہے۔
اسرائیل نے اتوار کو اعلان کیا تھا کہ وہ روزانہ 10 گھنٹوں کے لیے غزہ کے کچھ حصوں میں فوجی کارروائیاں روک دے گا اور امداد کے لیے نئے راستے کھولے گا۔ غزہ میں شدید انسانی بحران کے باعث اسرائیل کو بین الاقوامی سطح پر بڑھتی ہوئی تنقید کا سامنا ہے کیونکہ بھوک سے نڈھال فلسطینیوں کی تصاویر نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
برطانیہ کے وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی نے اس عارضی وقفے کا خیر مقدم کیا لیکن اسے ’بہت تاخیر سے کیا گیا اقدام‘ قرار دیا اور زور دیا کہ زمینی راستے فوری طور پر کھولے جائیں کیونکہ صرف فضائی امداد سے غزہ میں شدید مشکلات کے شکار لوگوں کی ضروریات پوری نہیں ہو سکتیں۔
اسرائیلی اعلان کے مطابق تاحکم ثانی فوجی کارروائیاں صبح 10 بجے سے رات 8 بجے تک روکی جائیں گی اور یہ وقفہ ساحلی پٹی پر واقع انسانی ہمدردی کے لیے مختص علاقے المواسی، وسطی شہر دیر البلح اور شمالی علاقے غزہ شہر میں ہوگا۔
اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ اتوار سے خوراک اور ادویات کی ترسیل کے لیے مختص قافلوں کے لیے صبح چھ بجے سے رات 11 بجے تک محفوظ راستے دستیاب ہوں گے۔
اردن اور متحدہ عرب امارات نے کئی مہینوں میں پہلی مرتبہ 25 ٹن امداد ہوائی جہازوں سے گرائی۔ غزہ شہر میں فلسطینی محکمہ صحت کے حکام نے بتایا کہ امدادی پیکٹس گرنے سے کم از کم 10 افراد زخمی ہوئے۔
مصر میں قائم ہلال احمر نے بھی کہا ہے کہ وہ جنوبی غزہ کے لیے 1,200 میٹرک ٹن خوراک لے جانے والے 100 سے زائد ٹرک بھیج رہا ہے۔
امدادی تنظیموں نے خبردار کیا ہے کہ غزہ کے 22 لاکھ عوام کو بڑے پیمانے پر قحط کا سامنا ہے جس سے بین الاقوامی سطح پر تشویش میں اضافہ ہو رہا ہے۔
اقوام متحدہ کی فوڈ ایجنسی نے امداد پر عائد پابندیوں میں نرمی کو خوش آئند قرار دیا تاہم عالمی ادارے نے کہا کہ امداد مستحقین تک پہنچانے کے لیے وسیع سطح پر جنگ بندی ضروری ہے۔ یونیسیف نے بھی اس اقدام کو ’زندگیاں بچانے کا موقع‘ قرار دیا۔
عالمی ادارہ خوراک نے کہا کہ اس وقفے سے فوری طور پر درکار خوراک کی امداد میں تیزی لائی جا سکتی ہے۔ ادارے نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر بتایا کہ اس کے پاس اتنی خوراک موجود ہے یا راستے میں ہے، جو غزہ کی آبادی کے لیے تقریباً تین ماہ تک کافی ہو سکتی ہے۔
غزہ کی وزارت صحت کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر منیر البورش نے بچوں میں غذائی قلت کے علاج کے لیے طبی امداد اور دیگر سامان کی فوری ترسیل کا مطالبہ کیا۔
انہوں نے کہا: ’یہ انسانی ہمدردی کی جنگ بندی بےمعنی ہو گی اگر اسے زندگیاں بچانے کے حقیقی موقع میں نہ بدلا گیا۔ ہر تاخیر ایک اور موت کے مترادف ہے۔‘
اقوام متحدہ کے امدادی سربراہ ٹام فلیچر نے کہا کہ ان کے اہلکار ان مخصوص علاقوں میں وقفے کے دوران بھوکے لوگوں تک امداد پہنچانے کی کوششوں میں تیزی لائیں گے۔
انہوں نے ایک پوسٹ میں لکھا: ’ہماری ٹیمیں موقعے کا فائدہ اٹھا کر جتنے زیادہ بھوکے لوگوں تک پہنچ سکتی ہیں، پہنچیں گی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ادھر غزہ کے ہسپتالوں العودہ اور الاقصیٰ کے حکام کا کہنا ہے کہ اتوار کو امدادی ٹرکوں کا انتظار کرنے والے شہریوں پر اسرائیلی فائرنگ سے کم از کم مزید 17 افراد مارے اور 50 زخمی ہوئے۔ اسرائیلی فوج نے اس پر فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
غزہ میں حکام کے مطابق گذشتہ چند ہفتوں میں درجنوں فلسطینی غذائی قلت سے زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔ فلسطینی وزارت صحت نے بتایا کہ گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران غذائی قلت سے مزید چھ اموات ہوئیں، جس سے بھوک اور غذائی قلت سے اموات کی مجموعی تعداد 133 ہو گئی ہے، جن میں 87 بچے شامل ہیں۔
اسرائیل کو غزہ میں تباہ کن انسانی بحران ختم کرنے کے لیے بین الاقوامی دباؤ کا سامنا ہے خاص طور پر جب امریکہ کی قیادت میں قطر میں ہونے والے امن مذاکرات جمعرات کو اچانک ختم ہو گئے۔
امریکہ کے خصوصی ایلچی سٹیو وٹکوف نے حماس پر جنگ بندی کی طرف ’دلچسپی نہ رکھنے‘ کا الزام لگایا۔
زیر غور معاہدے کے مطابق 60 روزہ جنگ بندی کی جانی ہے جس کے دوران حماس زندہ 10 یرغمالیوں کو اور 18 دیگر کی باقیات مرحلہ وار اسرائیل کے حوالے کرے گا جس کے بدلے میں اسرائیل فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا۔
مجوزہ معاہدے کے تحت امداد میں بھی اضافہ کیا جائے گا اور دونوں فریق ایک مستقل جنگ بندی کے لیے مذاکرات کریں گے۔
اسرائیل، جس نے مارچ میں امداد روک دی تھی اور پھر مئی میں سخت پابندیوں کے ساتھ دوبارہ کھولی، کا اصرار ہے کہ وہ امداد کی ترسیل کو کنٹرول کرے گا تاکہ یہ عسکریت پسندوں کے ہاتھ نہ لگے۔
© The Independent