سیاسی ’سیز فائر‘ کی گنجائش؟

عمران خان 10 مئی کے بعد کے حالات میں یا تو صورت حال درست پڑھ نہیں پا رہے یا مایوسی میں غلط فیصلوں پر مجبور ہیں۔

یوم پاکستان کے موقع پر پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کے ہمراہ (اے ایف پی/ فائل فوٹو)

طویل سائے دن چڑھتے ہی سُکڑنا شروع ہو جاتے ہیں یا یوں سمجھیے کہ روشنی سایوں کو نگل جاتی ہے۔ سائے تو پھر سائے ہیں جو تیرگی میں پروان چڑھتے ہیں، خدشوں میں پرورش پاتے ہیں اور خوف میں طوالت اختیار کرتے ہیں۔ سایوں کا مگر ایک ہی علاج ہے اور وہ ہے روشنی، سچ اور دلیری۔

ہماری ریاست سے سایوں کے ڈھلنے کاعمل کب شروع ہو گا؟ جنگ کے بادل فی الحال چھٹ چکے ہیں مگر پاکستان کی اصل جنگ اب بھی برقرار ہے۔ کامیابی ملکی سرحدوں کے محاذ پر ہوئی ہے، فضاؤں نے فتح کا جشن منایا ہے مگر اصل جنگ اب بھی لڑی جار ہی ہے اور لڑی جانی ہے۔

یہ لڑائی اندرونی لڑائی ہے جس میں دشمن گھات لگا کر بیٹھا ہے، اس لڑائی میں معاشرے میں موجود جگہ جگہ بارودی سرنگیں لگائی گئی ہیں جن کا خاتمہ صرف اُس وقت ممکن ہے جب امن کے دنوں میں جنگ کے لیے خود کو تیار کیا جائے۔

سیاست کے سب انداز بدل چکے ہیں، تبدیلیاں اس قدر تیزی سے ہو رہی ہیں کہ شاید گھڑی کو بھی احساسِ رفتار نہیں۔ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ نہ تو حالات نارمل ہیں اور نہ ہی واقعات۔ انڈیا کی جانب سے طاری جنگ ٹلی نہیں، سفارتی، میڈیائی اور سرحدی محاذ پر جاری جنگ مقبولیت اور معقولیت کے سب تقاضے سمیٹے بیٹھی ہے۔ ایسے میں ریاست کے سب ستون ایک صفحے پر ہیں اور سیاسی اور عسکری قیادت یک جان دو قالب جبکہ تصوراتی اور تعزیراتی بیانیے یکساں نظر آتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تحریک انصاف کہاں کھڑی ہے؟ عمران خان نے ایک بار پھر مقتدرہ کی جانب مشروط مذاکرات کا ہاتھ بڑھایا مگر ساتھ ہی احتجاجی سیاست کااعلان بھی کیا۔ جماعتی سطح پر عدم یکسوئی اور تحریکی بدانتظامی جماعت کے لیے خوف ناک ہو چکی ہے جبکہ قیادت کا فقدان کسی طور جماعت کے لیے سودمند نہیں

عمران خان رہائی کی کوششوں میں فیصلہ سازی سے محروم نظر آتے ہیں جبکہ قیادت کسی ایک کے ہاتھ بھی دینے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ تنظیمی بنیادوں پر ڈھانچہ ختم ہو چکا ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ گذشتہ روز ہونے والے ضمنی انتخاب کے غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج میں بھی تحریک انصاف مقبولیت کے معیار پر پورا اترتی دکھائی نہیں دی۔

تحریک انصاف کے کیمپس میں مایوسی روز بروز بڑھ رہی ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ کہیں عملی طور پر ممکنہ احتجاجی تحریک میں شرکت کارکنوں کے لیے ایک ڈراؤنا خواب نہ بن جائے۔

عمران خان سیاسی قوتوں سے بات چیت نہیں کرنا چاہتے جبکہ مقتدرہ کسی طور اُن سے گفتگو کے لیے رضامند نظر نہیں آتی، عمران خان شکست ماننے کو تیار نہیں جبکہ مقتدرہ جیت کے مراحل سے بھی آگے نکل چکی ہے، عمران خان اپنی شرائط پر گفتگو چاہتے ہیں جبکہ مقتدرہ اب شرائط پر بھی رضامند دکھائی نہیں دیتی، عمران خان سیاست کو آزمانا نہیں چاہتے جبکہ یہ صورت حال موجودہ سیاسی بندوبست کے لیے نہایت موزوں ہے۔

عمران خان 10 مئی کے بعد کے حالات میں یا تو صورت حال درست پڑھ نہیں پا رہے یا مایوسی میں غلط فیصلوں پر مجبور ہیں۔ بہر حال یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ جنرل عاصم منیر کے خلاف بھی ہوں اور اُن سے گفتگو کے متمنی بھی۔

عمران خان کی ’مقتدرہ‘ سے وابستہ لامحدود خواہشیں یوں بھی دم توڑ رہی ہیں کہ نو مئی کے ملزمان کی سزاؤں کا عمل شروع ہو گیا ہے۔ حال ہی میں ایک رکن قومی اسمبلی کو دی جانے والی سزا اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کے خلاف نااہلی ریفرنس نے جماعت پر خوف کے سائے بڑھا دیے ہیں۔

تحریک انصاف کے کئی قائدین نو مئی کے ممکنہ فیصلوں کے نتیجے میں 50 کے قریب اراکین اسمبلی کی نااہلی کی پیش گوئی کر رہے ہیں جبکہ اس صورت حال میں عمران خان پارٹی اراکین کو اسمبلیوں سے استعفے کا کہہ سکتے ہیں۔

ایسے میں جب تحریک انصاف کے پاس آپشنز محدود سے محدود ہو رہے ہیں تو کیا احتجاجی سیاست آخری حل ہے؟ کیا استعفوں یا نااہلی کی صورت تحریک انصاف دوبارہ انتخابی اور پارلیمانی سیاست میں آ پائے گی؟

پی ٹی آئی  کو ’پریشر گروپ‘ سے زیادہ سیاسی جماعت کے طور کام کرنا ہو گا، بقول علی امین گنڈا پور جماعت کو ’نو مئی کی غلطیوں‘ پر معافی مانگ کر آگے بڑھنا ہے مگر اس معافی کی تلافی ہو گی یا نہیں اس بارے تحریک انصاف غیر یقینی کی صورت حال میں ہے۔

سیاسی سیز فائر کے لیے کوششیں جاری رہنا چاہییں تاہم ایک طرف مذاکرات کی خواہش اور دوسری جانب ناکامی کی صورت عسکری قیادت کی کردار کشی کی مہم پی ٹی آئی کو کوئی فائدہ دے پائے گی؟

سیاست ناممکنات سے ممکن بنانے کے فن کا نام ہے اور یہ فن محترمہ بے نظیر بھٹو سے بہتر کوئی نہیں جانتا تھا۔ پی ٹی آئی آگے بڑھے ریاست خود ایک قدم پیچھے ہٹ جائے گی مگر اس کے لیے سیاست کو ہی آزمانا ہو گا۔۔ ہو سکتا ہے سیاسی سیز فائر کی بھی کوئی گنجائش نکل آئے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر