ہم کس دور میں زندہ ہیں؟ جمہوریت، نیم جمہوریت یا آمریت؟ مزاحمت، مفاہمت یا مصلحت؟ الٹی لہروں سے لڑنا مزاحمت ہے تو طغیانی خاموش کیوں ہے، مفاہمت ہے تو کس لڑائی کے بعد یہ مفاہمت ٹھہری، مصلحت ہے تو کن اصولوں پر سودے بازی ہوئی؟
یہ تین سوال جزئیات سے ہٹ کر موضوعِ بحث بن جائیں تو موجودہ حالات سمجھ میں آ سکتے ہیں۔
سب گذشتہ سے پیوستہ ہے۔ ماضی بھلایا نہیں جا سکتا۔ یہ کیسے فراموش کر دیا جائے کہ ہم کب جمہوریت میں رہے ہیں یا جمہور کی اصل رائے کب نظام کا حصہ بنی ہے؟ نیم جمہوریت یا ہائبرڈ نظام کس طرح آیا اور اب ہائبرڈ پلس میں کس طرح داخل ہوئے؟ کون کون کس کس نظام کا حصہ رہا اور کس نے کب کب ’نظام‘ سے فائدہ اٹھایا اور اب بھی اٹھانے کی خواہش ہے۔
گذشتہ ہفتے سپریم کورٹ سے آنے والے فیصلے نے ایک اور بیانیے کو جنم دیا ہے۔ سوشل میڈیائی مقبول بیانیے سے فائدہ اٹھانے والے فیصلے کو متنازع اور نظام سے مصلحت رکھنے والے غیر متنازع قرار دے رہے ہیں۔ یہ سوچے بغیر کہ فیصلے نہ مقبول ہوتے ہیں اور نہ ہی غیر مقبول، فیصلے صرف آئین اور قانون کے پابند ہوتے ہیں اور ہونا بھی چاہییں۔
مگر وطن عزیز میں عدلیہ نظام بگاڑتی بھی رہی اور سسٹم کی بینفشری بھی رہی، وزرائے اعظم کو گھر بھی بھیجتی رہی اور تختہ دار کے سپرد بھی کرتی رہی، نظریہ ضرورت بھی دیا اور نظریہ سہولت بھی، مصلحت سے کام بھی لیا اور آئین سے تصادم بھی کیا۔ گویا عدلیہ مقتدرہ کا دایاں بازو بھی بنی اور سہولت کاری بھی کرتی رہی۔
گذشتہ دو دہائیوں میں عدلیہ کے کردار اور مقتدرہ کے لیے سہولت کاری سوال بن کر سامنے آئی۔ سابق وزیراعظم گیلانی اور بعد میں نواز شریف کی رخصتی، فیصلوں پر مانیٹرنگ جج کی تعیناتی، تبدیلی پراجیکٹ‘ کی لانچنگ، ’صادق‘ اور ’امین‘ کے فیصلوں سمیت کئی اہم معاملات پر یہ سوال اٹھتے رہے۔
عدلیہ میں ’طویل المدتی سرمایہ کاری‘ نے بہر حال موجودہ نظام کی ہیئت کو بدلنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ جمہوریت کے بہی خواہ نظام پر لگی کاری ضرب سے آگاہ کرتے رہے، مگر کبھی غدار تو کبھی لفافے قرار پائے۔
جمہوریت پاکستان میں خوفناک حادثات کا شکار رہی، الیکشن چوری ہوئے، مقتدرہ ’چنتخب‘ حکمران لاتی رہی اور اب حالات سب کے سامنے ہیں۔ آدھا کام ہائبرڈ نظام کو لانے میں ہوا، آوازیں دبائی گئیں یہاں تک کہ غوں غاں کی آوزیں بھی حلق میں ہی خاموش کر دی گئیں۔ سول سوسائٹی اپنے انجام کو پہنچی اور دانشوروں، میڈیا اور عوام کو مقبول بیانیوں کا عادی بنایا گیا۔ اب نہ کوئی سچ سنتا ہے اور نہ ہی بیان کرنے کو تیار ہے کیونکہ ایک سماجی فسطائیت جنم لے چکی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آمریت اور فسطائیت باہم دست و گریبان ہیں اور پہلے سے منہ موڑی جمہوریت دیوار سے لگ چکی ہے۔ سب خلط ملط ہے اور سیاست کے امیر اس کہانی کا انجام کنارے پر کھڑے دیکھ رہے ہیں۔ منتظر ہیں کہ نظام بگاڑنے والے درستگی کریں گے تو وہ آگے بڑھیں گے۔۔۔ ’ان ڈو،‘ ’کنٹرول آلٹ ڈیلیٹ‘ تک معاملہ جائے گا تو نظام واپس اپنے دھارے میں آئے گا۔
حسب حال قانونی تقاضے پورے کیے جا رہے ہیں اور شاید یہ سوچے سمجھے بغیر کہ مستقبل کا کیا حال ہو گا۔
سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے سے سیاسی اثرات صرف ’سیاسی جماعتوں‘ پر ہوں گے۔ پریشر گروپس اور غیر سیاسی گروہ اس نظام میں چلنے کے لیے بےبس ہوں گے۔ قومی اسمبلی کی اکثریت بدل چکی، جبکہ خیبر پختونخوا اسمبلی پر تلوار لٹک چکی ہے جس کے اثرات بہرحال سینیٹ انتخابات پر ہوں گے۔
سیاسی نظام میں سیاسی جماعتیں مزاحمت کر سکتی ہیں مگر حالیہ نظام میں یہ جماعتیں مطمئن دکھائی دیتی ہیں یا اس نظام کی بینیفشری ہیں۔ البتہ تحریک انصاف اپنی ’سیاسی بقا‘ کے لیے صرف سیاست کا سہارا لے تو نظام بچ سکتا ہے۔
انتہائی سلیقے سے بگاڑے گئے نظام کو کس طریقے سے واپس لایا جائے گا یہ سیاست دانوں کو سوچنا ہو گا۔ کیا وہ وقت آئے گا کہ جب عدلیہ، مقتدرہ، میڈیا، اور پارلیمنٹ سمیت سب ادارے اپنے اندر احتساب کا عمل شروع کریں تب ہی جمہوریت کی جانب بڑھا جا سکتا ہے ورنہ ’پاس کر یا برداشت کر۔‘
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔