طالبان حکام نے افغانستان بھر میں شطرنج پر پابندی عائد کر دی۔
کھیلوں کے سرکاری ادارے کے ایک عہدے دار نے اتوار کو اس پابندی کی وجہ یہ بتائی کہ شطرنج جوئے کا ذریعہ بن سکتی ہے جو حکومت کے اخلاقی قوانین کے تحت غیر قانونی ہے۔
طالبان حکومت 2021 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے سخت مذہبی قوانین اور ضوابط بتدریج نافذ کر رہی ہے۔
کھیلوں کے ادارے کے ترجمان اطل مشوانی نے بتایا ’اسلامی قانون میں شطرنج کو جوئے کا ایک ذریعہ سمجھا جاتا ہے اور یہ گذشتہ برس جاری کیے گئے ’امر بالمعروف و نہی عن المنکر‘ قانون کے تحت ممنوع ہے۔‘
انہوں نے کہا ’شطرنج کے کھیل کے حوالے سے کچھ مذہبی تحفظات بھی ہیں۔ جب تک ان تحفظات کو دور نہیں کیا جاتا، افغانستان میں شطرنج کا کھیل معطل رہے گا۔‘
مشوانی کے مطابق قومی شطرنج فیڈریشن نے تقریباً دو سال سے کوئی سرکاری تقریب منعقد نہیں کی اور قیادت کی سطح پر بھی کچھ مسائل درپیش تھے۔
کابل میں عزیزاللہ گلزادہ نامی شہری ایک کیفے چلاتے ہیں جہاں حالیہ برسوں میں غیر رسمی شطرنج کے مقابلے منعقد ہوتے رہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کسی قسم کے جوئے کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ شطرنج دیگر مسلم اکثریتی ممالک میں بھی کھیلا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا ’بہت سے دوسرے اسلامی ممالک میں بین الاقوامی سطح کے کھلاڑی موجود ہیں۔‘
تاہم انہوں نے کہا کہ وہ اس پابندی کا احترام کریں گے لیکن یہ ان کے کاروبار اور کھیل سے لطف اندوز ہونے والوں دونوں کے لیے نقصان دہ ہو گی۔
’آج کل نوجوانوں کے پاس زیادہ سرگرمیاں نہیں، اس لیے وہ روزانہ یہاں آتے تھے۔ وہ چائے پیتے اور اپنے دوستوں کو شطرنج کے مقابلے کا چیلنج دیتے تھے۔‘
افغانستان میں حالیہ برسوں میں دیگر کھیلوں پر بھی پابندیاں عائد کی گئی ہیں اور خواتین کو ملک میں کھیلوں میں حصہ لینے سے تقریباً مکمل طور پر روک دیا گیا ہے۔
گذشتہ برس حکام نے مکسڈ مارشل آرٹس اور ایم ایم اے جیسے پیشہ ورانہ مقابلوں پر بھی پابندی لگا دی تھی جسے انہوں نے ’انتہائی پرتشدد اور شریعت کے لحاظ سے مسئلہ انگیز‘ قرار دیا تھا۔