سعودی عرب میں شطرنج اور مہکتی کافی سمیٹے ایک رات

میں آس پاس دیکھتا ہوں تو کئی صوفے آباد ہو چکے ہیں۔ لوگ مقامی ہیں، گپ شپ میں لگے ہیں اور سمجھ یہ آتی ہے کہ جس جگہ میری موجودگی ہے وہ ایک ماڈرن قہوہ خانہ ہے جہاں سگریٹ نوشی جائز ہے اس لیے بہت دنیا کا پسندیدہ مقام ہے۔

متحدہ عرب امارات کی شطرنج کھلاڑی عائشة سرحان المعينی یکم اگست 2022 کو مڈغاسکر کی ٹیم کے خلاف کھیلتے ہوئے (اے ایف پی)

میں ریسٹورنٹ کے اندر داخل ہوتا ہوں تو الٹے ہاتھ پہ ایک میز ہے۔ دو کرسیاں آمنے سامنے ہیں، تین چار بغیر ترتیب کے دھری ہوئی اور ایک پیلا صوفہ دیوار کے ساتھ لگا ہے۔

شطرنج چل رہی ہے، افغانستان، یمن، مصر، سعودی عرب سمیت پاکستان کے شہری وہاں اکٹھے بیٹھے کھیل رہے ہیں۔

مجھے صوفے کی طرف لے جایا جاتا ہے جہاں مصری کھلاڑی بیٹھے ہیں۔ بالخصوص بتلایا جاتا ہے کہ یہ سب سے ماہر چال چلنے والے ہیں۔ میں ان سے ہاتھ ملاتا ہوں اور انگریزی میں تعارف کرواتا ہوں کہ میرا نام ’گمال‘ ہے۔ (مصری جیم کو گاف کہتے ہیں تو ان کی سہولت کے لیے میں خود ہی جیم کو گ بنا لیتا ہوں۔)

وہ مسکرا کر ہاتھ ملاتے ہوئے کہتے ہیں ’کافی مصری نام ہے۔‘ پھر بتاتے ہیں ’میرا نام شریف ہے۔‘ اب ہنسنے کی باری میری ہے، قہقہہ لگا کر میں کہتا ہوں کہ یہ کافی سے زیادہ پاکستانی نام ہے۔ انہیں اس بات سے اتفاق ہے، ہم ویسے بھی مشہور قوم ہوتے ہیں۔

شریف صوفے کے درمیان میں ہو جاتے ہیں اور مجھے کونہ آفر کرتے ہیں۔ یہ میزبانی کی اعلیٰ مثال ہے چونکہ دنیا بھر کہیں بھی گاڑی کی پچھلی سیٹ کے درمیان میں بیٹھنے والا کوئی خاص آرام دہ حالت میں نہیں ہوتا۔ میں آفر قبول کرتا ہوں اور شریف پانچ منٹ بعد مذکورہ حالت میں پہنچ جاتے ہیں۔

مجھے اتنا پروٹوکول اس لیے مل رہا ہے چونکہ ابوالحسن علی قدوسی کے ساتھ میں یہاں آیا ہوں جو پاکستان سے شطرنج کے ٹورنامنٹ کھیلتے ہوئے نکلے اور دنیا بھر میں جہاں چوپال جمائی وہاں بساط ڈھونڈ نکالی۔ تو میں ایک پائے کے شطرنجی کا دوست ہوں اور بس اس لیے اب آرام دہ صوفے کے ایک کونے پر بیٹھا سکون سے ایک عدد سگریٹ سلگانے والا ہوں۔

شریف مجھے اپنا سگریٹ آفر کرتے ہیں، یہ بھی عرب مہمان نوازی کی ایک بنیادی چیز ہے۔ اگر آپ سموکر ہیں تو دعوت قبول نہ کرنا ہلکی سی بدتہذیبی سمجھی جاتی ہے۔ میں سگریٹ قبول کے بازی دیکھنے لگ جاتا ہوں۔

اس وقت یہاں رات کے ساڑھے بارہ بجے ہیں اور بلٹز کھیلی جا رہی ہے۔ شطرنج میں سٹینڈرڈ، بلٹز اور بلٹ، تین قسم کی بازیاں کھیلی جاتی ہیں۔ سٹینڈرڈ میں کھیلنے والوں کے پاس وقت زیادہ ہوتا ہے، بلٹز پانچ سے پندرہ بیس منٹ کے دوران ختم ہوتی ہے جب کہ بلٹ دو تین منٹ کا کھیل ہوتا ہے۔

مجھے بلٹز سے زیادہ گھڑی پہ تیزی سے ہاتھ مارنے والا منظر زیادہ دلچسپ لگ رہا ہے۔ یہ باریکیاں بھی ابوالحسن نے سمجھائی ہیں۔ فرض کیجے پندرہ منٹ کی بازی ہے تو دونوں کھلاڑیوں کے پاس فی بندہ ساڑھے سات منٹ ہیں۔ آپ بازی ٹھیک چل رہے ہوں تو بھی وقت کی بنیاد پہ ہار سکتے ہیں۔ تو جیسے ہی  کھلاڑی ایک ہاتھ سے چال چلتا ہے اسی وقت دوسری ہتھیلی مار کے اپنا کاؤنٹر روک دیتا ہے اور فی الفور سامنے والے کا ٹائمر چالو ہو جاتا ہے۔

سامنے ٹی وی پہ فٹ بال میچ چل رہا ہے۔ شریف مصری مجھ سے اس بارے میں کچھ پوچھتے ہیں اور میں فوراً اعتراف کرتا ہوں کہ بھاگنے دوڑنے والا کوئی کھیل عمر بھر دیکھا نہ کھیلا، شطرنج تھوڑی بہت جانتا ہوں اور صحت مند کھیلوں سے عاجز ہوں۔ وہ حیرت سے مجھے دیکھ کے سر جھکاتے ہیں اور گہرا سوٹا مارتے ہیں۔ یہ بھی مہمان نوازی کی علامت ہے ورنہ کیا خبر وہ کچھ بولنا چاہتے ہوں۔

ابوالحسن پوچھتے ہیں کہ پینا کیا ہے۔ عرب کافی کی فرمائش کرتا ہوں تو وہ کاؤنٹر سے واپس آتے ہوئے کہتے ہیں کہ بھئی ڈیوٹی پہ موجود جوان ایک ’فارنر‘ کی اس فرمائش سے بڑے خوش ہوئے ہیں اور دل جان سے کافی بنا رہے ہیں لیکن بیس بائیس منٹ لگیں گے چونکہ ترکیب میں سب کچھ بالکل روایتی ہو گا۔

انتظار کے دوران سگریٹ نکالتا ہوں تو اب میں شریف کو آفر کرتا ہوں، وہ قبول کرتے ہیں اور سگریٹ کا نام و نسب دیکھنے لگ جاتے ہیں۔ عرض کرتا ہوں کہ یہ واحد ڈبی ہے جس پہ کوئی بدصورت تصویر ہے نہ کسی قسم کی وارننگ، اور یہ پیتے ہوئے انسان بورژوا بھی نہیں لگتا، بے خوف سلگائیے!

سگریٹ کا پہلا کش کھینچتے ہی مجھے لگتا ہے کہ وہ پنجابی بولنا چاہتے ہوں گے۔ منہ کو آتی عربی روک کے لیکن انگریزی ہی میں کہتے ہیں کہ بھئی شدید کڑوا تمباکو ہے۔ ہم دونوں انٹرنیٹ پہ اس کا نکوٹین اور ٹار چیک کرتے ہیں۔ بہرحال وہ شجرے سے مطمئن نہ ہونے کے باوجود فلٹر تک کش لگاتے رہتے ہیں اور مجہول دنیا پہ غور کرتے ہیں۔ یہ بھی لاریب کہ یہاں کی مہمان ہی نوازی ہے!

زردی مائل رنگت کی وہ شدید خوشبودار کافی آتی ہے تو میں پہلوئے شریف سے اٹھ کے ساتھ والی میز پہ منتقل ہو جاتا ہوں اور ہلکا سا گھونٹ بھرتا ہوں۔ ذائقہ غضب ہے اور مقدار بالکل اتنی ہے جتنی عام طور پہ ایک پاکستانی کو درکار ہوتی ہے، یعنی مگا بڑا ہے۔ عام طور پہ عرب کافی یا قہوہ جب بھی پیا چھوٹی سی ایک گھونٹ کی گلاسی ہوتی تھی لیکن وہ عام طور والا معاملہ دبئی یا سعودی عرب میں کسی لاؤنج سے مفت ہی پینے کا ہوتا تھا۔ تو اس بار مگا بڑا ہے اور ذائقہ واللہ کمال ہے۔

بیچ کافی میں بے اختیار اٹھ کر میں جوان کے پاس جاتا ہوں اور پوچھتا ہوں کہ بھائی یہ بنتی کیسے ہے۔ وہ عربی کے علاوہ کچھ نہیں بول سکتے، میری زبان ’تکلم عربی شویہ‘ تک محدود ہے۔ مترجم کے طور پہ افغان بھائی آتے ہیں، وہ فارسی وان ہیں لیکن عربی کا محاورہ ان کا بہتر ہے۔ ابوالحسن بھی اس جستجو میں شامل ہوتے ہیں اور دو بندوں کی اس محنت سے میرا اور جوان کا ابلاغ مکمل ہوتا ہے جس کا خلاصہ سمجھیے کہ پتی تو بازار سے ملے گی لیکن اس کے علاوہ لونگ اور الائچی ڈالنی ہے، پھر ابال کے بعد پندرہ منٹ تک خوب پکانا ہے۔

میں اپنا اردو کی بورڈ لگاتا ہوں اور موبائل جوان کے سامنے کرتا ہوں تو وہ غریب بڑی مشکل سے مطلوبہ لفظ ڈھونڈ کے یہ نسخہ تحریر کر دیتے ہیں۔ ’قرنفل ھیل خلطت قصیم۔‘ اس چہار حرفی کو گوگل کے حوالے کرنے کی نیت سے میں بازی پہ آتا ہوں تو اب بساط پہ ابوالحسن موجود ہیں اور وہی پندرہ منٹی کھیل چل رہا ہے۔

میں آس پاس دیکھتا ہوں تو کئی صوفے آباد ہو چکے ہیں۔ لوگ مقامی ہیں، گپ شپ میں لگے ہیں اور سمجھ یہ آتی ہے کہ جس جگہ میری موجودگی ہے وہ ایک ماڈرن قہوہ خانہ ہے جہاں سگریٹ نوشی جائز ہے اس لیے بہت دنیا کا پسندیدہ مقام ہے۔

گوگل کی بجائے میں عثمان قاضی بھائی کو یہ عربی الفاظ بھیج کے مدد لیتا ہوں اور ساقی فاروقی کو یاد کرتا ہوں۔ پاپ بیتی میں انہوں نے لکھا تھا کہ شمس الرحمٰن فاروقی کو وہ صبح سویرے کس طرح قاضی الحاجات سمجھ کے دعا دیتے تھے۔ تو بس عثمان بھائی بتاتے ہیں کہ لونگ اور الائچی کوٹیے، اچھی طرح ابالیے، پندرہ بیس منٹ بعد یہ والی کافی ڈال دیجے اور تھوڑا پکا لیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ روایتی عرب قہوہ ساری رات ہلکی آنچ پر پکتا ہے اور بطور سوغات قریبی احباب کو تحفے میں بھجوایا جاتا ہے۔

’اب تو ہر چیز میں جلدی ہے، جو آپ نے پی، وہ بھی انسٹنٹ سے بنی ہو شاید۔ اس میں ہوتا یہ ہے کہ بعض اوقات مقامی لوگ بنا کے فریج میں سنبھال بھی لیتے ہیں، شیک ویل بی فور یوز کرتے ہیں اور چڑھا جاتے ہیں۔‘  

خوراکیں کہیں بھی وہ والی نئیں رہ گئیں۔ میں سوچ ہی رہا ہوتا ہوں اور خیال آتا ہے کہ یا خدا، انسٹنٹ والی کافی اگر یہ واقعی ہے، اور ایسی ہے تو وہ جو ساری رات پکتی ہو گی، کیا بلا ہو گی!

ویسے اللہ ہی جانتا ہے کہ نسخہ اگر ساری رات والا ہوتا تو میرے دشمن بھی کبھی نہ پوچھتے جا کے، اور بنانے کا تو خیر ارادہ بھی نہ پھٹکتا آس پاس!

پوری طبیعت سے مطمئن ہو کے ہم دونوں باہر نکلتے ہیں۔ جدہ بارش کے موڈ میں ہے اور مسافر ایک چھینٹ پہ چھتری تانننے کے، دونوں زحمت سے بچ جاتے ہیں۔ ابوالحسن مجھے منزل تک پہنچا دیتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ