دماغ کو زیادہ محنت سے بچانے والا ٹیٹو

اسے بنانے والے محققین کا کہنا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی ہوائی ٹریفک کنٹرولرز، ٹرک ڈرائیورز اور دیگر افراد کے ذہنی بوجھ کو ٹریک کرنے کے لیے استعمال کی جا سکتی ہے, جنہیں طویل عرصے تک شدید توجہ مرکوز رکھنی پڑتی ہے۔

حقیقی وقت میں ذہنی کام کے بوجھ کو ٹریک کرنے والا ای ٹیٹو (Device/Huh et al)

چہرے کا ایک نیا ای ٹیٹو یہ جان سکتا ہے کہ دماغ کب زیادہ محنت کر رہا ہے اور اسے تیار کرنے والے محققین کے مطابق دماغ عموماً ایسا ہی کرتا ہے۔

یہ نیا الیکٹرانک آلہ چہرے پر لگایا جاتا ہے اور ذہنی دباؤ ناپ سکتا ہے، بغیر اس بڑے اور بھاری ہیڈگیئر کے جو روایتی طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

اسے بنانے والے محققین کا کہنا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی ہوائی ٹریفک کنٹرولرز، ٹرک ڈرائیورز اور دیگر افراد کے ذہنی بوجھ کو ٹریک کرنے کے لیے استعمال کی جا سکتی ہے، جنہیں طویل عرصے تک شدید توجہ مرکوز رکھنی پڑتی ہے۔

ہر شخص بہترین کارکردگی تب دیتا ہے جب وہ اپنے ذہنی سوچ کے دباؤ کو متوازن رکھتا ہے، یعنی نہ تو وہ ضرورت سے زیادہ دباؤ میں ہو اور نہ ہی اُکتاہٹ کا شکار ہو، لیکن اس توازن کو تلاش کرنا مشکل ہو سکتا ہے اور موجودہ تحقیق زیادہ تر ایسے طویل مطالعے پر انحصار کرتی ہے، جو شرکا سے اُس وقت لیا جاتا ہے جب وہ کوئی کام مکمل کر چکے ہوتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یونیورسٹی آف ٹیکساس ایٹ آسٹن سے وابستہ اس مطالعے کی مصنفہ نانشو لو نے کہا: ’ٹیکنالوجی انسان کی ارتقائی رفتار سے کہیں زیادہ تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔ ہمارا دماغی نظام اس کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہو پا رہا اور آسانی سے بوجھ تلے آ سکتا ہے۔ بہترین کارکردگی کے لیے ایک مثالی یعنی مناسب اور متوازن ذہنی دباؤ ہوتا ہے، جو ہر فرد کے لحاظ سے مختلف ہو سکتا ہے۔

محققین کو امید ہے کہ یہ ’ای-ٹیٹو‘ اس میں مدد دے سکتا ہے۔ یہ دماغ کی برقی سرگرمی اور آنکھوں کی حرکت کا تجزیہ کرتا ہے۔ ایسا کرنا عام طور پر ایک پیچیدہ ٹوپی کے ذریعے ممکن ہوتا ہے، جو تاروں سے جڑی ہوتی ہے، لیکن یہ ٹیٹو ایک ہلکے پھلکے بیٹری پیک اور سینسر پر مشتمل ہوتا ہے، جو جلد پر چپک جاتے ہیں۔

اس کے تخلیق کاروں کے بقول سینسر کی پتلی اور لچکدار نوعیت کی وجہ سے یہ پہننے والے کے چہرے کے مطابق فٹ ہو جاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ نتائج درحقیقت اُن بھاری بھرکم ٹوپیوں سے بہتر ہوں۔

لو نے کہا: ’حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ ٹوپیاں، اگرچہ دماغ کے مختلف حصوں کے لیے زیادہ سینسر رکھتی ہیں، لیکن کبھی بھی مکمل سگنل حاصل نہیں کرتیں کیونکہ ہر شخص کے سر کی شکل مختلف ہوتی ہے۔ ہم شرکا کی چہرے کی خصوصیات کی پیمائش کرتے ہیں تاکہ ذاتی نوعیت کے ای-ٹیٹوز تیار کیے جا سکیں، جو یہ یقینی بناتے ہیں کہ سینسر ہمیشہ درست مقام پر ہوں اور سگنلز وصول کر رہے ہوں۔‘

اس نظام کو جانچنے کے لیے، محققین نے یہ ٹیٹو چھ شرکا پر لگایا جنہیں ایک یادداشت کا چیلنج دیا گیا، جو بتدریج مشکل ہوتا گیا۔ جیسے جیسے یہ چیلنج سخت ہوتا گیا اور ان کا ذہنی دباؤ بڑھا، محققین نے اس کے اثرات کو دیکھا، ان کے دماغ میں تھیٹا اور ڈیلٹا قسم کی برین ویوز (دماغی لہریں) بڑھ گئیں۔ یہ اس بات کی علامت تھی کہ ان کا دماغ زیادہ محنت کر رہا تھا، ساتھ ہی، الفا اور بیٹا لہریں بھی بڑھ گئیں، جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ وہ تھکن محسوس کرنے لگے تھے۔

محققین کو امید ہے کہ یہی طریقے اس بات کو سمجھنے کے لیے استعمال کیے جا سکتے ہیں کہ دماغ کب جدوجہد کر رہا ہوتا ہے۔ یہ اس کی پیش گوئی کرنے کے قابل بھی ہو سکتا ہے، یعنی ایک کمپیوٹر ماڈل کو تربیت دے کر یہ معلوم کیا جا سکے گا کہ کسی مخصوص سرگرمی سے دماغ پر کتنا بوجھ پڑے گا۔

یہ تحقیق ’جرنل ڈیوائس‘ میں شائع ہونے والے ایک نئے مقالے میں شامل کی گئی ہے، جس کا عنوان ہے: ’A Wireless Forehead E-tattoo for Mental Workload Estimation‘۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی صحت