مریخ پر بھی چمن، خان پور اور مستونگ سمیت 11 پاکستانی مقامات موجود ہیں

انٹرنیشنل ایسٹرونومیکل یونین کی فہرست کے مطابق مریخ پر ارضیاتی خصوصیات کے لیے 11 پاکستانی شہروں اور دریاؤں کے نام وہاں کے مختلف علاقوں کو دیئے گئے ہیں۔

آپ نے تو بلوچستان میں چمن اور مستونگ جیسے شہروں کے نام سنے ہوں گے لیکن چمن اور مستونگ سمیت گیارہ پاکستانی شہر اور مقامات 22 کروڑ کلومیٹر دور کسی دوسرے سیارے پر موجود ہیں۔ جی یہ سیارہ ہے مریخ۔

ایک چمن مریخ پر بھی موجود ہے جہاں سے تھوڑا دور آپ کو مستونگ بھی ملے گا اور ہاں ، خان پور بھی کچھ تھوڑا ہی آگے ہے۔ نا تو کبھی کسی چمن یا مستونگ کے شہری نے مریخ پر قدم رکھا ہے اور نہ پاکستان وہاں کوئی خلائی مشن اتار سکا ہے تو یہ شہر وہاں کیسے پہنچ گئے؟

جی ہم آپ کو بتاتے ہیں۔ مریخ میں عام لوگوں کی دلچسپی بڑھانے کے لیے انٹرنیشنل ایسٹرونومیکل یونین دنیا کے مختلف ممالک کے شہروں کے نام جن کی آبادی ایک لاکھ سے کم ہو مریخ کے مختلف مقامات کو دیتا ہے۔ اس فہرست میں صرف پاکستان نہیں، دنیا بھر کے ملکوں کے علاقوں کے نام شامل ہیں۔ انڈیا کے بھی 50 مقامات کے نام وہاں بھی رکھے گئے ہیں۔ تو وہ گیارہ پاکستانی شہروں اور مقامات کون سے ہیں؟

ان میں بلوچستان سے چمن، ضلع خصدار سے گواش، مستونگ، خاران سے خورلی، سندھ سے ہالا، انڈس ویلی، پنجاب کے ضلع راجن پور سے جام پور اور راوی اور جہلم ویلی، خیبرپختونخوا سے خان پور، اور شاردی یا شاردہ (نیلم ویلی) شامل ہیں۔

ایک سوال یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آئی اے یو کون ہے جو کسی دوسرے سیارے کے خطوں کو نام دے؟ کیا یہ روسیوں یا کسی اور ملک کو ناراض نہیں کرے گا؟ دراصل یہ ایک کافی پیچیدہ طریقہ کار ہے۔ یہ نام ایک ایسا عمل ہے جس کا مقصد کسی بھی گفتگو کے دوران آپ جانتے ہوں کہ کس علاقے کے بارے میں بات ہو رہی ہے۔

1960 کی دہائی سے مریخ کا مطالعہ کرنے والے کئی مشنوں کے بعد، کئی ممالک نے مریخ پر گڑھوں کے نام رکھنے کے لیے درخواست بھی دے رکھی ہیں۔ یہ نہیں واضح کہ آیا پاکستان کے لیے ان مقامات کے نام خود رکھے گئے یا یہ کسی کے کہنے پر ہوا۔

نام رکھنے کے لیے بین الاقوامی فلکیاتی یونین کے مختلف ورکنگ گروپ ہیں جیسے کہ چاند، زہرہ، عطارد، مریخ، بیرونی نظام شمسی وغیرہ۔ اس ٹاسک گروپ کے ارکان کو تجویز کردہ ناموں کے ساتھ ای میل موصول ہوتی ہے اور انہیں اپنا فیصلہ کرنے کے لیے چند ہفتے دیئے جاتے ہیں۔

بڑے گڑھوں کا نام ان فوت شدہ سائنس دانوں، مصنفین اور دیگر پر رکھا جاتا ہے جنہوں نے مریخ کے مطالعہ میں حصہ ڈالا ہے۔ اس لیے رے بریڈبری کے لیے ’بریڈبری لینڈنگ‘ کا نام ہے۔ چھوٹے گڑھوں کا نام ان قصبوں اور شہروں پر رکھا جاتا ہے جن کی آبادی ایک لاکھ سے کم ہے۔ بڑی وادیوں کا نام مختلف زبانوں میں مریخ یا لفظ ’ستارہ‘ پر جب کہ چھوٹی وادیوں کے نام زمین پر موجود دریاؤں پر رکھے جاتے ہیں۔

ایسا کرنے کا مقصد اس تعلق  کے ذریعے شہر کے رہائشیوں کو فلکیات میں دلچسپی لینے پر اکسانا ہوتا ہے تاکہ وہ بھی آگے چل کر اس بابت ہونے والی پیش رفت پر نظر رکھ سکیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مریخ کی سطح پر بڑی تعداد میں گڑھے ہیں، بہت سے گڑھے ہمارے چاند اور دیگر چاندوں سے مختلف ہیں کیونکہ مریخ زمین کے نیچے برف رکھتا ہے، خاص طور پر اونچی عرض البلد میں۔

پاکستان کے گیارہ کے مقابلے میں انڈیا کے 50 مقامات کے نام مریخ پر رکھے گئے ہیں۔ افغانستان کی فراہ وادی جو دریا اور صوبہ بھی ہے اور زرنج قصبے کے دو مقامات کے نام دیئے گئے ہیں۔

آئی اے یو کے نام کے انتخاب کا طریقہ کار سخت قواعد پر مبنی ہے تاکہ وہ بین الاقوامی نوعیت، غیر سیاسی، غیر فوجی اور غیر مذہبی ہوں۔ اس اعتبار سے شاید اسلام آباد کبھی بھی مریخ پر جگہ نہیں بنا سکے گا، کم از کم اس وقت تک جب تک یہ ادارہ اپنے اصول تبدیل نہیں کرتا۔

نام رکھنے کے چند اہم قوائد یہ ہیں:

بڑے گڑھے: (جن کا قطر ساٹھ کلومیٹر سے زیادہ ہے) ان مرحوم سائنس دانوں کے نام پر رکھے گئے ہیں جنہوں نے مریخ کے مطالع میں نمایاں خدمات انجام دی ہیں، یا سائنس فکشن مصنفین کے نام پر ہیں جن کی بین الاقوامی شہرت ہے، مثلا بریڈبری لینڈنگ۔

چھوٹے گڑھے: دنیا بھر کے چھوٹے شہروں اور دیہاتوں کے نام پر رکھے گئے ہیں جن کی آبادی تقریبا ایک لاکھ یا اس سے کم ہے (مثلا حال ہی میں کیرالا، انڈیا سے بیکل اور ورکلا کا اضافہ کیا گیا ہے)۔

بڑی وادیاں: (ویلس) کو مختلف دنیا کی زبانوں میں لفظ ’مارس‘ یا ’ستارہ‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔

چھوٹی وادیاں: ایسے مقامات کے نام زمین پر موجود دریاؤں کے نام پر رکھے گئے ہیں (مثلا پیریار ویلیس، جو انڈیا کے ایک دریا کے نام پر رکھا گیا ہے)۔

پہاڑ (مونز)، میدان (پلینیشیا) اور پلیٹو (پلینم) اکثر مریخ کے ابتدائی نقشوں پر کلاسیکی نقشوں کی خصوصیات سے ماخوذ نام استعمال کرتے ہیں (مثلا اولمپس مونز، جو نظام شمسی کا سب سے بلند پہاڑ ہے)۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی سائنس