سپیس ایکس کا مریخ مشن کے لیے سٹارشپ راکٹ کا ٹیسٹ مکمل

سٹارشپ کو ناسا کے آرٹیمس پروگرام کے تحت خلابازوں اور سامان کو چاند کی سطح پر پہنچانے کے لیے بھی تیار کیا جا رہا ہے۔

سپیس ایکس نے 22 ستمبر 2025 کو ٹیکساس میں کمپنی کی سٹار بیس کی سہولت پر اپنے سٹارشپ راکٹ کا فائر ٹیسٹ کیا (اپیس ایکس)

سپیس ایکس نے اپنے مریخ کی جانب روانہ کیے جانے والے سٹارشپ راکٹ کے ایک اہم مرحلے کا حتمی ٹیسٹ کامیابی سے مکمل کر لیا ہے۔

ٹیکساس میں پیر کو سپیس ایکس کے سٹار بیس (Starbase) لانچ سائٹ پر راکٹ کے اپر سٹیج نے چھ ریپٹر انجنز کا سٹیٹک فائر ٹیسٹ کیا، جس کے دوران انجن لانچ پیڈ سے جکڑے ہوئے تھے۔

توقع ہے کہ اگلا فلائٹ ٹیسٹ آئندہ دنوں یا ہفتوں میں انجام پائے گا۔

یہ دنیا کے سب سے بڑے اور طاقتور راکٹ کا گیارہواں ٹیسٹ فلائٹ ہوگا، جسے سپیس ایکس کے سربراہ ایلون مسک 2029 میں خلابازوں کو مریخ لے جانے کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔

سٹارشپ کو ناسا کے آرٹیمس پروگرام کے تحت خلابازوں اور سامان کو چاند کی سطح پر پہنچانے کے لیے بھی تیار کیا جا رہا ہے۔ اگلا ٹیسٹ فلائٹ پچھلے دو ٹیسٹوں کی طرح ہی پروفائل پر مبنی ہوگا، جس میں راکٹ کا اپر سٹیج سٹار بیس سے لانچ ہوگا اور بعد ازاں بحرِ ہند میں جا گرے گا۔

اس سال 2025 میں سپیس ایکس کو سٹارشپ لانچز کے سلسلے میں متعدد ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے، تاہم 26 اگست کا سب سے حالیہ ٹیسٹ کامیاب رہا۔ ان رکاوٹوں کی وجہ سے ناسا کو اپنے آرٹیمس پروگرام کی ٹائم لائن کو پیچھے دھکیلنا پڑا ہے، جس کا مقصد نصف صدی سے زائد عرصے بعد دوبارہ انسان کو چاند پر بھیجنا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

چاند پر لینڈنگ کا ہدف پہلے 2024 کے لیے مقرر تھا، مگر سٹارشپ ہیومن لینڈنگ سسٹم (HLS) کی تیاری میں مشکلات کے باعث اب یہ مشن کم از کم 2027 کے وسط سے پہلے ممکن نہیں لگتا۔

ایروسپیس سیفٹی ایڈوائزری پینل کی ایک حالیہ میٹنگ میں خبردار کیا گیا کہ ناسا کا قمری مشن مزید تاخیر کا شکار ہو سکتا ہے۔

پینل کے رکن اور ناسا کے سابق ڈائریکٹر مشن آپریشنز پال ہل نے کہا کہ ’ایچ ایل ایس کا شیڈول انتہائی دباؤ کا شکار ہے اور ہمارے اندازے کے مطابق 2027 میں آرٹیمس 3 مشن کے تحت چاند پر لینڈنگ کئی برس تاخیر کا شکار ہو سکتی ہے۔‘

اہم مسئلہ راکٹ کے مداری ری فیولنگ (Orbital Refuelling) سے جڑا ہے، جو خلابازوں کو چاند کی سطح پر پہنچانے کے لیے ضروری ہے۔ سپیس ایکس نے ابھی تک اس عمل، جسے کرائیوجینک پروپیلنٹ ٹرانسفر کہا جاتا ہے، کو عملی طور پر ثابت نہیں کیا۔

ایڈوائزری پینل نے نتیجہ اخذ کیا ’ آنے والے چھ ماہ کے دوران اسٹارشپ کے لانچز یہ طے کرنے میں فیصلہ کن ہوں گے کہ آیا ایچ ایل ایس 2027 تک یا دہائی کے اختتام سے قبل خلابازوں کو لے جانے کے قابل ہو سکے گا یا نہیں۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی