’سوات کلاؤڈ برسٹ کے بارے میں سیاحوں کو مطلع کیوں نہیں کیا؟‘

محکمہ آبپاشی خیبر پختونخوا کے حکام نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو منگل کو بتایا کہ سوات میں ڈسکہ کے خاندان کے ساتھ پیش آنے والے اندوہناک واقعے کی ابتدائی اطلاع غلط موصول ہوئی تھی۔

26 جون، 2025 کو سوات میں کچھ لوگ سیلابی ریلے میں پھنسے ہوئے ہیں (ویڈیو: ایاز/ سکرین گریب)

محکمہ آبپاشی خیبر پختونخوا کے حکام نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو منگل کو بتایا کہ سوات میں ڈسکہ کے خاندان کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کی ابتدائی اطلاع غلط موصول ہوئی تھی۔

حکام محکمہ آبپاشی مالاکنڈ نے بھی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ ’27 جون کو صبح سات بجے مالاکنڈ سے سوات پانی کا بہاؤ معمول کے مطابق تھا۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’خوازہ خیلہ کے مقام پر دو منٹ کے اندر موسلا دھار بارش سے یہ سانحہ پیش آیا۔‘

حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ ’جو پہلی کال ہمیں آئی اس میں کہا گیا تھا کہ بچے ہوٹل میں پھنس گئے ہیں۔ یہ نہیں بتایا گیا دریا میں پھنس گئے ہیں۔‘

27 جون کو پنجاب کے شہر ڈسکہ اور مردان کے دو خاندان سوات میں خوازہ خیلہ کے مقام پر دریائے میں سیر کر رہے تھے، جب اچانک پہاڑوں پر کلاؤڈ برسٹ کے نتیجے میں پانی کی سطح بلند ہونا شروع ہوئی۔

دریا کے خشک حصوں میں سیر کرنے والے سیاح پانی میں پھنس گئے اور انہیں بروقت امداد فراہم نہ کی جا سکی، جس کے باعث تقریباً ایک درجن انسانی جانیں ضائع ہوئیں تھیں۔  

سینیٹر ثمینہ زہری کی صدارت میں ہونے والے قائمہ کمیٹی کے اجلاس کو کمشنر سوات نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ’دریائے سوات میں بڑے بڑے پتھر ہیں اس لیے وہاں کشتیاں نہیں جا سکتیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’یہ کلاؤڈ برسٹ کا واقعہ تھا اور جس مقام پر فیملیز موجود تھیں وہاں پانی کا بہاؤ بہت تیز تھا۔ وقت بہت کم تھا لیکن پھر بھی جتنا ممکن ہو سکتا تھا بچاؤ کیا گیا۔‘ 

کمشنر سوات نے مزید بتایا کہ ’مالاکنڈ ڈویژن میں سیلاب کی 27 جون کو ایڈوائزری جاری کی گئی تھی۔ محکمہ سیاحت خیبرپختونخوا کو احتیاطی تدابیر کے لیے فنڈ جاری ہو چکے تھے۔‘ 

چئیرپرسن ڈاکٹر ثمینہ زہری نے اس موقع پر کہا کہ ’معلوم ہے کہ قدرتی آفات کسی بھی وقت آ سکتی ہیں۔ سوات واقعے کے دن کیا ہوا اب تک کیا تحقیقات ہوئی وہ بتائیں۔‘ 

اس پر کمشنر سوات نے بتایا کہ ’سیالکوٹ اور مردان کی فیملی صبح نو بج کر 37 منٹ پر دریائے سوات پر تفریح کر رہے تھے تو حادثہ پیش آیا۔

سینیٹر علامہ راجہ ناصر عباس نے سوال اٹھایا کہ ’پی ڈی ایم اے نے کیا انتظام کیا تھا؟‘ 

سینیٹر زرقا سہروردی تیمور نے کہا کہ ’کے پی ٹوور ازم پولیس کو عوام کو روکنا چاہیے، انتظامی سطح پر بیٹھ کر رپورٹ تیار کرنے سے بہتر ہے کہ دنیا کے ماڈل پر آگہی پیدا کریں۔‘ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس پر ڈی پی او سوات نے بتایا کہ ’ہوٹل انتظامیہ نے سیاحوں کو تنبیہ کی تھی کہ دریا کے قریب نہ جائیں۔‘

 چیئرپرسن کمیٹی ثمینہ زہری نے ریمارکس دیے کہ ’ایک سیاح کے طور پر کسی کو کیا معلوم تھا کہ سوات میں کلاؤڈ برسٹ ہوتا ہے، سیاحوں کو پہلے سے مطلع کیوں نہیں کیا گیا؟ 

سینیٹر زرقا سہروردی نے اس موقع پر کہا ’جس طرح کی وڈیو سامنے آئی بالکل واضح ہے کہ ہیلی کاپٹر ہی بچا سکتے تھے۔‘ 

کمشنر سوات نے ان تمام سوالات پر بتایا کہ ’کے پی حکومت نے اعلی سطح انکوائری کمیٹی بنائی تھی جو ایک دو دن میں رپورٹ جمع کرائے گی۔‘

ٹک ٹاکر ثنا یوسف قتل کیس 

کمیٹی کو ٹک ٹاکر ثنا یوسف قتل کیس پر بریفنگ دیتے ہوئے ایس ایس پی انویسٹیگیشن عثمان طارق نے بتایا کہ ’مقدمے کا چالان تیار ہے، جو سکروٹنی کے بعد عدالت میں پیش کیا جائے گا۔‘

 انہوں نے مزید بتایا کہ ’دو جون ہونے والے 17 سالہ ٹک ٹاکر ثنا یوسف کے قتل کا ملزم فیصل آباد سے فارچونر گاڑی پر اسلام آباد آیا اور سی سی ٹی وی میں ثنا یوسف کے گھر سے بھاگتا ہوا نظر آیا۔‘

کمیٹی اجلاس میں ثنا یوسف کی والدہ بھی موجود تھیں۔ سینیٹر عرفان صدیقی نے انہیں دیکھ کر کہا کہ ’ثنا یوسف کی والدہ بتا دیں کہ کیا آپ پولیس کی کارروائی سے مطمئن ہیں؟‘ 

والدہ ثنا یوسف نے جواباً کہا کہ ’اسلام آباد پولیس کی کارکردگی بہت زبردست رہی ہے، ہم اسلام آباد پولیس کی کارکردگی سے مطمئن ہیں۔‘

ایس ایس پی انوسٹیگیشن نے کہا کہ ’ثنا یوسف کے قتل کے بعد عید تھی اور 14 دن میں شناخت پریڈ کرانا تھی۔ ثنا کی والدہ کو گاڑی میں ڈرپ لگی ہوئی تھی اور وہ شناخت پریڈ کے لیے اسلام آباد آئیں۔ 

’میں نے ثنا یوسف کے والد کو کہا کہ یہ پاکستان کی 12 کروڑ بچیوں کا مقدمہ ہے۔ ثنا یوسف کے والدین کا حوصلہ ہے کہ اس صدمے کے دوران انہوں نے مکمل تعاون کیا۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان