دریائے سوات عوام کی امیدیں بھی بہا لے گیا

دریائے سوات کی موجیں خیبر پختونخوا کے عوام کی وہ امیدیں بھی بہا کر لے گئی ہیں جو تحریک انصاف سے باندھ لی گئی تھیں۔

4 مئی 2023 کو لی گئی اس تصویر میں، صوبہ خیبر پختونخوا کی وادی سوات کے بحرین قصبے میں 2022 کے موسم گرما میں دریائے سوات کے کنارے آنے والے سیلاب سے تباہ ہونے والے خالی ہوٹلوں اور گھروں کے قریب کھانے کی نئی دکانوں کی تصویر دی گئی ہے۔ حال ہی میں دریائے سوات میں آنے والے سیلاب میں 18 افراد ڈوب گئے تھے (عامر قریشی/ اے ایف پی)

ایک ہی خاندان کے 18 افراد کے دریائے سوات کی بے رحم موجوں کی نذر ہونے والا دلخراش واقعہ بہت سارے چہروں سے نقاب اتار گیا ہے۔

13 سال سے برسراقتدار تحریک انصاف کی حکومت جنہوں نے صوبے کو سنگاپور بنانا تھا خیبر پختونخواہ کی یہ حالت کر دی ہے کہ کئی گھنٹے دریا میں پھنسے رہنے والے افراد کو ریسکیو نہ کیا جا سکا۔

گذشتہ کئی کالموں میں صوبے کی بیڈ گورننس اور امن و امان کی انتہائی مخدوش صورتحال کا تفصیلی ذکر کر چکا ہوں۔

صوبے کے عوام پی ٹی آئی کو مسلسل تین بار مینڈیٹ دینے کی اس وقت ایک بڑی قیمت چکا رہے ہیں۔

جب پارٹی نے ریاست سے ٹکر لینے کا فیصلہ کیا تو اس لڑائی میں صوبے کے وسائل پولیس سے لے کر سرکاری مشینری تک سب کو جھونکا گیا جس کا براہ راست اثر گورننس پر پڑا۔

سوات کی ریسکیو ٹیم کی ایک گاڑی اسلام آباد پولیس کے پاس کھڑی ہے جسے 26 نومبر کے احتجاج کے دوران پکڑ لیا گیا تھا۔

اس سے اندازہ لگا لیں کہ پی ٹی آئی کے طرز سیاست اور طرز حکمرانی کی ایک بڑی قیمت خیبر پختونخوا کے عوام ادا کر رہے ہیں۔

یہ بات بھی درست ہے کہ باقی صوبے جنت نہیں بن گئے لیکن موازنہ کریں تو کے پی کے مقابلے میں گورننس قدرے بہتر ہے۔

دریائے سوات کی موجیں خیبر پختونخوا کے عوام کی وہ امیدیں بھی بہا کر لے گئی ہیں جو تحریک انصاف سے باندھ لی گئی تھیں۔

خیبر پختونخوا کے کسی جید صحافی سے بھی پوچھ لیں کہ صوبے میں گورننس کی کیا صورت حال ہے۔ جواب یہی ملے گا کہ کرپشن اتنے عروج پر ہے کہ صوبے کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی اور یہ بھی کہ جو کام کروانا ہو اس کا ایک پرائس ٹیگ ہے۔

حال ہی میں 40 ارب کا کوہستان سیکنڈل آٹے میں نمک کے برابر ہے اور یہ الفاظ خیبر پختونخوا اسمبلی کے سپیکر بابر سواتی کے ہیں۔

سونے پہ سہاگہ جب تحریک انصاف سے ان کی ناہلی پر سوال کریں تو جواب میں آپ کو دوسری جماعتوں کی نااہلیاں گنوانا شروع کر دیں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سوال ہوا کہ 13 سال حکومت میں رہ کر بھی اگر یہ حالت ہو کہ پانی میں پھنسے 18 افراد کو نہ بچا پائے تو جواب ملا کہ پاکپتن میں 20 بچے آکسیجن نہ ملنے سے بھی تو مرے ہیں۔

یعنی بےحسی کی ایک حد ہوتی ہے۔ نااہلی جہاں بھی ہو وہ نااہلی ہی ہوتی ہے چاہے پنجاب حکومت کی ہو یا پختونخوا حکومت کی، لیکن مریم نواز 13 برس سے پنجاب کی حکمران تو نہیں ہیں نہ ہی وہ پنجاب کو سنگاپور بنانے کا دعوی کر رہی ہیں لیکن پنجاب میں کام بھی ہو رہا ہے اور گورننس بھی بہتر ہو رہی ہے۔

دوسری جانب خیبر پختونخوا کی بات کریں تو پارٹی کے ایک مرکزی رہنما کے مطابق پرویز خٹک کے بعد محمود خان اور پھر علی امین گنڈاپور تک کا سفر صرف زوال کی داستان ہے۔

پیپلز پارٹی اگر عرصہ دراز سے سندھ پر حکمرانی کر رہی ہے تو ان کا دعویٰ یہ ہے صرف سندھ میں بننے والے بڑے بڑے جدید ہسپتال جہاں مفت علاج ہوتا ہے وہ کوئی صوبے بنا کے دکھائے۔

اسی بنیاد پر بلاول بھٹو کہتے ہیں کہ پاکستان ہمیں ووٹ دے۔ یہاں سوائے وکٹم کارڈ کے پی ٹی آئی کے پاس کارکردگی نام کی کوئی چیز نہیں دکھانے کو۔

ظاہر ہے تحریک انصاف کے مقبول جماعت ہے اور 2024 کے انتخابات نے بھی یہی ثابت کیا ہے لیکن عوام اگر آنکھیں بند کر آپ کو ووٹ دے رہے ہیں تو آپ کو گورننس اور پرفامنس سے یہ ثابت کرنا ہے کہ عوام کی پسند باکل درست تھی۔

معاملہ صرف 18 افراد کے بہہ جانے کا نہیں۔ دریائے سوات کے کنارے 200 فٹ تک کسی بھی قسم کی آبادی پر پابندی ہے لیکن مینگورہ سے اوپر جائیں تو مدین، بحرین اور کالام تک کئی کلو میٹر طویل پٹی پر دریائے سوات کی دونوں جانب بلند و بالا ہوٹلز کی عمارتیں نظر آئیں گی۔

یہ عمارتیں ہر دفعہ سیلابی ریلوں میں بہہ جاتی ہے لیکن پھر دوبارہ تعمیر کر لی جاتی ہیں۔ کون دیتا ہے اس غیر قانونی کام کی اجازت؟ حکومت کی عمل داری سرے سے آپ کو نظر ہی نہیں آتی۔

 

ویسے تو کوئی موازنہ بنتا نہیں لیکن برطانیہ میں جانوروں کے ریسکیو کے لیے درجنوں تنظیمیں قائم ہیں ہیلپ لائنیں موجود ہیں کسی کتے یا بلی کو خطرے میں محسوس پائیں تو کال کریں ٹیم فورا پہنچ جاتی ہے۔

ایک طرف کتے اور بلیوں کی جانیں بچ جاتی ہیں تو دوسری جانب امداد کے منتظر بے بس انسان پانی میں بہہ جاتے ہیں۔

یہی وزیراعلی علی امین گنڈا پور صوبے میں ایئر ایمبولینس سروس شروع کرنے کے اعلانات کر چکے ہیں۔ خیر اعلانات تو ایک کروڑ نوکریوں اور 50 لاکھ گھروں کی تعمیر کے بھی ہوئے تھے۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ ان 18 افراد کو بچانے کے لیے ہیلی کاپٹر کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ شروع میں پانی کا بہاؤ کافی کم تھا، ریسکیو 1122 کے اہلکار آسانی سے تمام افراد کو بچا سکتے تھے لیکن وہ پہنچتے تو سہی۔

سوات کے عوام نے نہ صرف اس واقعے کے خلاف بھرپور احتجاج کیا بلکہ متاثرہ خاندان سے معافی بھی مانگی بقول ان کے ہم اپنے مہمانوں کو بچا نہ سکے۔

اصل میں تو معافی صوبے کے وزیراعلی کو مانگنی چاہیے جو علیمہ خان کے ریسکیو کے لیے تو ہیلی کاپٹر بھجوا سکتے ہیں لیکن 18 بےبس لوگوں کی زندگی بچانے لیے ریسکیو ٹیم نہیں۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر