وزیراعظم شہباز شریف جنرل سید عاصم منیر کو فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی ملنے کے اگلے روز ہی چار ممالک ترکی، ایران، آذربائیجان اور تاجکستان کے ہنگامی دورے پر روانہ ہوگئے۔ بظاہر اس دورے کا مقصد انڈیا - پاکستان کشیدگی میں پاکستانی موقف کی حمایت پر شکریہ ادا کرنا ہے لیکن سفارتی طور پر یہ دورہ کئی لحاظ سےانتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
ایک تو خطے میں روایتی جنگ میں پاکستان نے ’نیو نارمل‘ (نیا معمول) سیٹ کر دیا گیا ہے، اور پاکستان معاشی طور پر کمزور سہی لیکن ایک ایسی جوہری طاقت کے طور پر ابھرا ہے جس کی دفاعی صلاحیت پر دنیا حیران ہے۔
اس وقت ان ممالک کا دورہ عالمی اور خطے کے اہم ممالک کے لیے یہ آپٹیکس سیٹ کر رہا ہے کہ ایک طرف بنگلہ دیش، سری لنکا اور نیپال جیسے پڑوسیوں سے بڑھتی ہوئی کشیدگی سے انڈیا خطے میں تیزی سے تنہائی کی طرف بڑھ رہا ہے تو دوسری جانب پاکستان جو کہ کبھی واقعی دنیا اور خطے میں تنہائی کا شکار تھا، اب سوائے انڈیا کے تمام ممالک سے مضبوط تعلقات استوار کر رہا ہے۔
پاکستان انڈیا کشیدگی میں ترکی نے جس طرح کھل کر پاکستان کی نہ صرف حمایت کی بلکہ وزیر اعظم شہباز شریف اینکرز سے ہونے والی ملاقات میں یہاں تک کہہ گئے کہ ’انہوں نے ہماری جس طرح کی مدد کی حساسیت کی وجہ سے اس کی تفصیل نہیں بتائی جا سکتی لیکن پاکستان کی فتح میں ترکی کی مدد شامل تھی۔‘
ان کا اشارہ عسکری مدد کی جانب تھا جس کی تفصیل انہوں نے نہیں بتائی۔
وزیر اعظم شہباز شریف کی دورہ ایران کے موقع پر انڈیا کو امن مذاکرات کی دعوت اور پرامن، شہری مقاصد کے لیے ایرانی جوہری پروگرام کی حمایت کا اعلان
— Independent Urdu (@indyurdu) May 26, 2025
مزید تفصیلات: https://t.co/HWoHO6rrfX pic.twitter.com/rZqsF0euMn
اسی طرح آذربائیجان نے جس طرح کھل کر پاکستان کی حمایت کی تو انڈین وزیر خارجہ نے دھمکی دی کہ ہم آپ کا بائیکاٹ کر دیں گے۔
اس کے بعد انڈیا میں ترکی اور آذربائیجان کی مصنوعات کے بائیکاٹ کی ایک منظم مہم بھی چلائی گئی۔ ترکی کی کمپنی انڈیا میں ائرپورٹ ہنڈلنگ جیسے اہم کام کر رہی ہے۔
دوسری جانب وہ انڈیا جو کسی زمانے میں صرف پاکستان پر دہشت گردی کے الزامات لگا کر دنیا کی توجہ حاصل کر لیتا تھا اس مرتبہ عالمی سطح پر اپنے مؤقف کی ماضی والی پذیرائی حاصل نہیں کر پایا۔
اب اسے آپ پاکستان کی سفارتی جیت سمجھیں یا انڈیا کی ثبوت پیش کرنے میں ناکامی لیکن دنیا میں یہ ثابت ہو چکا ہے کہ یہ معرکہ کس نے مارا۔
اب آگے کیسے بڑھا جائے؟ وزیراعظم کے چار ممالک کا دورہ ایک اچھا اور بروقت فیصلہ ہے لیکن بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں بننے والا وفد پہلے تو تاخیر سے بنایا گیا اور جب بن بھی گیا تو بریفنگز میں الگ وقت ضائع کروایا جا رہا ہے۔
انڈین وفد ششی تھرور کی سربراہی میں 21 مئی سے امریکہ میں ڈیرے ڈال چکا ہے۔ ان کے مختلف وفود اس وقت تین درجن سے زیادہ ممالک کا رخ کر چکے ہیں لیکن ہم ابھی بریفنگز میں مصروف ہیں۔
اصولی طور پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے سیز فائر اور پھر پے در پے بیانات کے بعد اعلیٰ سطح کا یہ وفد فوراً امریکہ اور اہم یورپی اور خلیجی ممالک میں بھجوا دینا چاہیے تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بین الاقوامی امور میں ٹائمنگ اہم ہوتی ہے اس وقت پاکستان - انڈیا کشیدگی بین الاقوامی ہیڈ لائن نہیں رہی، ایک طرف غزہ اور دوسری طرف ڈونلڈ ٹرمپ کے روسی صدر ولادی میر پوتن کے بارے میں متنازع بیانات سرخیاں بنا رہے ہیں۔
ایوان صدر میں سفارتی وفد کے سربراہ بلاول بھٹو سے استفسار کیا کہ کب جائیں گے تو بولے جون کے پہلے ہفتے میں۔ لیکن دس جون کو بجٹ پیش ہونا ہے اور بلاول بھٹو سمیت اس وفد کے اہم اراکین نے بجٹ سیشن کے لیے واپس آ جانا ہے۔
اتنے مختصر عرصے میں یہ سفارتی وفد کیا نتائج حاصل کر لے گا؟
ابھی تک یہ فیصلہ بھی نہیں ہو پایا کہ یہ سفارتی مشن بطور ایک وفد جائے گا یا اکٹھے سفر کرے گا؟
اینکرز سے ملاقات میں وزیراعظم سے یہ سوال ہوا تو انہوں ڈاکٹر مصدق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک وفد کی یہ قیادت کریں گے اور ایک کی بلاول صاحب۔
اگلی ہی ایک تقریب میں بلاول بھٹو سے ملاقات ہو گئی ان سے یہی سوال کیا تو بولے ابھی یہ فیصلہ ہی نہیں ہوا کہ کس نے کہاں جانا ہے اور وفد نے اکٹھے جانا ہے یا الگ الگ۔
اخذ یہی کیا جا سکتا ہے کہ ابھی تک اہم فیصلے نہ ہونے کی وجہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے کچھ معاملات پر عدم اتفاق بھی ہے۔
پیپلز پارٹی کا وفد خصوصا سینیٹر شیری رحمان جو کہ امریکہ میں سابق سفیر بھی رہ چکی ہیں سمجھتی ہیں کہ بلاول بھٹو واشنگٹن میں زیادہ ایفیکیٹوو (پراثر) ثابت ہوں گے، جبکہ وفد میں شامل ن لیگ کے اہم رہنماؤں کے مطابق ان کا وفد واشنگٹن جائے گا۔
پارڈی سکول آف گلوبل سٹیڈیز کے ڈین پرفیسر ڈاکٹر عادل نجم صاحب سے استفسار کیا کہ کیا پیغام ہونا چاہیے پاکستانی وفد کا، تو انہوں نے جواب دیا پہلے گھر سے نکل کر جہاز پر تو چڑھ جائیں بہت ہی دیر کر دی ہے۔
یہ پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ اس مرتبہ دنیا نے انڈیا کا یہ بیانیہ تسلیم کرنے سے انکار کیا کہ انڈیا میں جو کچھ ہو گا ہم فورا دہشت گردی کا لیبل پاکستان پر لگا کر اس کی آڑ میں جو کچھ کریں گے وہ قابل قبول ہو گا۔
جس طرح کالم کے اوائل میں ذکر ہوا کہ اب خطے میں نیو نارمل سیٹ ہو چکا ہے کہ جب جب انڈیا کوئی بہانہ بنا کر حملہ کرے گا اس کا جواب آئے گا، لیکن پاکستان کے حصے میں جو سفارتی یا روایتی جنگ کی کامیابی آئی اب اس کے جشن منانے سے باہر نکل کر اصل سفارتی اور بینانیے کی جنگ پر توجہ مرکوز کرنی ہو گی۔
انڈیا کا بیانیہ سادہ سا ہے کہ پاکستان اور دہشت گردی ایک ہی چیز کے دو نام ہیں ماضی میں ہماری پالیسیوں اور کوتاہیوں نے انڈیا کے اس بیانیے کو تقویت بھی دی، لیکن اب ہم نے دنیا کے سامنے یہ حقائق رکھنے ہیں کہ پاکستان تو خود دہشت گردی کا شکار ہے، بلوچستان اور پختونخوا جل رہے ہیں۔
دنیا کے سامنے ایک ایسی ریاست جو دہشت گرد گروپوں کی حمایت کرتی تھی اس کی شبیہ ہم نے خود تبدیل کروانی ہے کیونکہ اس میں اب رتی برابر حقیقت نہیں رہی، لیکن وقت ہمارے ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے۔
حالات کا تقاضہ تھا کہ ایک طرف اگر انڈین وفود مختلف دارالحکومت میں ملاقاتیں کر رہے ہوتے تو دوسری طرف پاکستانی وفود۔
بہرحال اب جتنا جلدی ہو سکے پاکستان کو سفارتی محاذ پر ایک مربوط اور جامع پیغام کے ساتھ دینا کو یہ پیغام دینا چاہیے کہ جب تک کشمیر کا بنیادی مسلئہ حل نہیں ہو گا آپ کچھ بھی کر لیں انڈیا اور پاکستان نہ صرف اسی طرح لڑتے رہیں گے بلکہ جوہری جنگ کے خطرات خطے پر منڈلاتے رہیں گے۔
ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ بار بار اور ہر سطح پر یہ بات اٹھائی جائے کہ آپ نے سیز فائر کے نیوٹرل وینیو اور ثالثی کی بات کی تھی، پاکستان تو تیار ہے بات چیت کے لیے، کہاں ہے آپ کا دوست نریندر مودی؟ اور ایک اور بات بھی دنیا کے سامنے رکھنا لازمی ہے کہ انڈیا پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔
شاید پہلی دفعہ ہے کہ انڈیا نے بغیر ثبوتوں کے الزام لگایا اور دنیا نے اس پر کان نہیں دھرے۔ یہی وہ موقع ہے جو فی الحال پاکستان کو میسر ہے، اگر اسے تاخیر کر کے بند نہ کر دیا جائے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔