ترجمان دفتر خارجہ نے جمعے کو کہا ہے کہ پاکستان نے کرتارپور راہ داری کو بند نہیں کیا، ملک انڈیا کی طرف سے آنے والے یاتریوں کے استقبال کے لیے تیار ہے۔
اس سے قبل میڈیا میں یہ خبریں گردش کر رہی تھیں کہ پاکستان اور انڈیا کے مابین فائر بندی کے بعد انڈیا پر کرتارپور راہداری کھولنے پر زور دیا جا رہا ہے۔ پہلگام حملے کے بعد، انڈیا نے واہگہ-اٹاری بارڈر کراسنگ کو بند کر دیا تھا۔
ترجمان دفتر خارجہ نے ہفتہ وار بریفنگ میں کہا ہے کہ پاکستان نے انڈیا کے ساتھ حالیہ کشیدگی کے باوجود کرتارپور راہداری کو کبھی بند نہیں کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ترجمان نے کہا کہ ’تاہم انڈیا کی جانب سے زائرین کو راہداری سے فائدہ اٹھانے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔ ہمیشہ کی طرح ہم انڈیا کی طرف سے آنے والے یاتریوں کے استقبال کے لیے تیار ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے، کرتارپور راہداری کھلی ہے۔ یہ انڈیا ہی ہے جو سات مئی کے بعد سے یاتریوں کو زیارت کی سہولت حاصل کرنے کی اجازت نہیں دے رہا ہے۔‘
دوسری جانب ترجمان دفتر خارجہ شفقت علی خان نے کہا پاکستان انڈیا کے وزیر اعظم کے الزامات کو مسترد کرتا ہے۔
’راجستھان میں انڈین وزیر اعظم کا خطاب اشتعال انگیز ہے۔ انڈیا کے الزامات بے بنیاد، گمراہ کن اور غیر ذمہ دارانہ ہیں جن سے کشیدگی بڑھے گی، انڈین بیانات علاقائی امن کے لیے خطرہ ہیں۔‘
شفقت علی خان نے کہا پاکستان جنگ بندی پر عمل تناؤ میں کمی کے لیے کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’پاکستان دہشت گردی کے خلاف عالمی جدوجہد میں متحرک پارٹنر ہے جبکہ انڈیا اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی کر رہا ہے اور اپنے داخلی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے جھوٹا پروپیگنڈا کر رہا ہے۔ بین الاقوامی برادری انڈیا کے جارحانہ رویے کا نوٹس لے، ہماری امن کی خواہش کو ہماری کمزوری ہر گز نہ سمجھا جائے۔ کوئی بھی ایڈوینچر انڈیا کو بھاری پڑ سکتا ہے۔‘
ترجمان نے کہا کہ ’پاکستان غزہ میں اسرائیلی جارحیت کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہے، غزہ کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خودارادیت ملنا چاہیے۔ پاکستان غزہ میں جلد سیز فائر کا مطالبہ کرتا ہے۔‘
ترجمان دفتر خارجہ نے سندھ طاس معاہدہ سے متعلق کہا کہ اس معاہدے کو یک طرفہ طور پر کوئی فریق معطل نہیں کر سکتا، اس پر ہم پاکستان کا منصفانہ حصہ وصول کرنے کے لیے کوششں جاری رکھیں گے۔
’اگر اس معاملے پر عالمی بنک سے رابطہ کی ضرورت پڑی تو حکومت پاکستان یہ کر سکتی ہے۔‘