’کرتارپور جیسے منصوبے آڈٹ سے مستثنیٰ ہونے چاہییں‘

اسلام آباد پارلیمنٹ کمیٹی روم میں آج پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں کرتار پور منصوبے پر لاگت کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دی گئی، اس کے علاوہ موٹر ویز کے زیر تعمیر منصوبوں پر بھی بات چیت ہوئی۔

کرتارپور میں 16 ستمبر 2019 کو تعمیراتی کام کے دوران لی گئی تصویر (اے ایف پی)

کرتار پور راہداری منصوبے پر آڈٹ سے متعلق ڈی جی ایف ڈبلیو او میجر جنرل کمال اظفر نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں سفارشات دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے بڑے قومی مفاد منصوبوں میں حکومت کو خاص رعایت دینی چاہیے، ساتھ ہی ساتھ کم وقت میں بننے والے ایسے منصوبوں پر آڈٹ سے بھی استثنیٰ ہونا چاہیے۔

ڈی جی ایف ڈبلیو او نے منگل کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں کہا کہ ’اسے معمول کا پروجیکٹ نہ سمجھا جائے اور نہ ہی معمول کے منصوبوں کے قوانین اس پر لاگو کیے جائیں۔‘

چئیرمین کمیٹی رانا تنویر نے کہا کہ ’یہ درست بات ہے کہ کرتار پور سپیشل منصوبہ تھا لیکن آڈٹ سے استثنیٰ دینا درست بات نہیں ہو گی۔‘

اس پر ڈی جی ایف ڈبلیو او نے کہا کہ ’اس کا حل یہ ہے کہ حکومت اس نوعیت کے منصوبوں میں آڈٹ اور کاغذی کارروائی خود کر لے تاکہ کاغذی کارروائیوں پر وقت کا ضیاع نہ ہو۔‘

جے یو آئی ایف کی رکن کمیٹی شاہدہ اختر نے کہا کہ ’آڈٹ ضرور ہونا چاہیے ورنہ یہ مثال بن جائے گی کہ آڈٹ نہ ہو۔‘

ان ریمارکس پر وزارت دفاع کے حکام نے جواب دیا کہ ’پبلک اکاؤنٹس کے اراکین کسی بھی وقت کرتار پور کا دورہ کر سکتے ہیں انہیں ہر تکنیکی جواب دیا جائے گا۔‘

ڈی جی ایف ڈبلیو او نے انہیں بتایا کہ ’اس منصوبے کا خصوصی آڈٹ تو پہلے ہی ہوچکا ہے۔ ہم پیسہ ادھار لے کر منصوبے پر کام کرتے رہے ہیں۔‘

ڈی جی ایف ڈبلیو او میجر جنرل کمال اظفر نے کرتار پور منصوبے پر تفصیلی بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ ’کرتار پور منصوبہ ریکارڈ مدت  10 ماہ میں مکمل کیا گیا۔ منصوبے پر16 ارب 54 کروڑ روپے لاگت آئی ہے۔ حکومت کی جانب سے فنڈز کے اجرا میں تاخیرکے باعث بینک سے قرضہ لینا پڑا۔‘

انہوں نے کمیٹی کو بتایا کہ ’ایف ڈبلیو او نے دیگر منصوبوں کے فنڈز کرتار پور راہداری منصوبے پرمنتقل کیے، کرتار پور منصوبے کی وجہ سے بعض دیگرمنصوبے متاثر ہوئے جب کہ دریائے راوی پر 800 میٹر طویل پل ریکارڈ مدت چھ ماہ میں مکمل کیا گیا۔‘

ڈی جی ایف ڈبلیو او نے بریفنگ میں بتایا کہ ’گذشتہ پانچ دہائیوں میں ایف ڈبلیو او نے ترقی کی منازل طے کی ہیں۔ ہزاروں سکھ کرتار پور آتے ہیں۔ 16.5 ارب کرتار پور راہداری کی پی سی ون لاگت تھی۔ کرتار پور منصوبہ تقریباً مکمل ہونے کے بعد حکومت کی جانب سے16 ارب28 کروڑ روپے کے فنڈزملے۔ منصوبے کا سنگ بنیاد 28 نومبر 2018 میں رکھا گیا جب کہ وزیراعظم نے منصوبے کا افتتاح 9 نومبر 2019 کو کیا تھا۔‘

میجر جنرل کمال اظفر نے مزید بتایا کہ ’ہمیں نیسپاک نے کہا تھا کہ یہ منصوبہ ڈھائی سے تین سال کا ہےلیکن ہم نے دس ماہ میں مکمل کیا۔ گردوارے کے مہمان خانے میں دو ہزار لوگ آسکتے ہیں۔ چئیرمین کمیٹی نےبریفنگ سن کر کہا کہ ’بہت کم وقت میں آپ نے بہت اچھا کام کیا، مستقبل میں بھی کوالٹی ورک پر توجہ دیں تاہم دس ماہ میں یہ منصوبہ مکمل کیا گیا مگر ان دس ماہ میں اس کی منظوری نہیں لی گئی۔‘

 اس موقع پر سیکرٹری دفاع ہلال حسین نے کہا کہ ’بھارت کرتار پور منصوبے کو ناکام کرنا چاہتا تھا۔ کرتارپورمنصوبے کی تکمیل میں بہت مشکلات پیش آئیں۔‘ سینیٹر طلحہ محمود نے تبصرہ کیا کہ ’ایک ایف ڈبلیو او کا کرتار پور منصوبہ اور اس کے علاوہ شہباز شریف کے میٹرو کے منصوبوں کو میں سراہتا ہوں جو بہت کم وقت میں مکمل ہوئے ہیں۔‘

اسلام آباد پارلیمنٹ کے کمیٹی روم نمبر دو میں رانا تنویر حسین کی زیر صدارت منگل کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں کرتار پور منصوبے پر آئی لاگت کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دی گئی۔  اس کے علاوہ موٹر ویز کے زیر تعمیر منصوبوں پر بھی بات چیت ہوئی۔

ساڑھے تین گھنٹے جاری رہنے والے اجلاس میں مزید کیا ہوا؟

تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے رکن پی اے سی نور عالم خان نے ایف ڈبلیو او کی کارکردگی پر سنجیدہ سوالات اٹھا دیے۔ انہوں نے کہا کہ ’ایف ڈبلیو او کا کام تو فوج کے مفادات کا خیال رکھنا ہے۔ فوج سے باہروالے منصوبے پر کس قانون کے تحت کام کر رہے ہیں؟‘ نور عالم خان نے مزید کہا کہ ’ایف ڈبلیو او کا عملہ  ٹول پلازوں پر لوگوں سے بدتمیزی کرتا ہے۔ اگر قومی مفاد کی بات کرنی ہے تو پھر یہ بات ہوگی۔ ایف ڈبلیو او نےگوادر میں جو سڑکیں بنائیں وہ خراب ہیں۔ ایف ڈبلیو حکام ٹول پلازہ پر اپنی مرضی کے مطابق ٹول ریٹ بڑھاتے ہیں۔‘

نور عالم خان نے کہا کہ ’قراقرم ہائی وے کا حال آپ کے سامنے ہے۔ میں نےکبھی ایم ون اور ایم ٹو پر کھڈا نہیں دیکھا تھا۔ اب دونوں موٹرویز پر کھڈے بنے ہیں، یہ چیزیں ہورہی ہیں۔ یہ عوام کا پیسہ ہے ہم نے ایک ایک پیسے کا حساب لینا ہے۔‘

ممبر کمیٹی نور عالم خان کے اعتراضات کی تائید کرتے ہوئے خواجہ آصف نے بھی کہا کہ ’سیالکوٹ لاہور موٹروے بہت ناقص بنی ہے۔ سیالکوٹ لاہور موٹروے پر سروس ایریا بھی نہیں ہیں۔ ڈی جی ایف ڈبلیو او اس سڑک پر خود چکرلگائیں تو پتہ چل جائے گا۔‘

رکن کمیٹی نور عالم خان نے چئیرمین کمیٹی رانا تنویر کی توجہ مبذول کرواتے ہوئے درخواست کی کہ ’سرمیرے سوالات کا جواب لے لیں۔‘

چئیرمین کمیٹی نے انہیں کہا کہ آپ کے سوالات کا جواب متعلقہ بریفنگ پر دیا جائے گا لیکن ڈی جی ایف ڈبلیو او نے ان کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے پاس 1816 کلو میٹر موٹروے ہے۔ ایم ٹو، ایم نائن، ایم الیون اور سوات موٹروے ہمارے پاس ہے۔ جن سڑکوں پر ہم نے بی او ٹی (بلٹ اوپریٹ ٹرانسفر)پر پیسہ لگایا اور بنکوں سے قرض لیا ان کو ہم نے بزنس ماڈل کے تحت چلانا ہے۔ جو منصوبہ مقررہ وقت میں مکمل نہیں ہوگا اس کی لاگت ضرور بڑھے گی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

رکن اسمبلی نور عالم خان کے سوال جس میں انہوں ٹول ٹیکس بڑھنے پر اعتراض کیا، اس کے جواب میں ڈی جی ایف ڈبلیو او نے بتایا کہ ’ٹال ریٹ این ایچ اے سے کنسیشن ایگری منٹ کے تحت بڑھتا ہے کیونکہ ہم  کام کے معیار پر کمپرومائزنہیں کرتے۔ موٹروے پر کسی قسم کا مسئلہ ہو کال سینٹر پر کال کریں، رسپانس ضرور ملےگا۔‘

ایف ڈبلیو او کے عملے کی بدتمیزی کا سُن کر ڈی جی ایف ڈبلیو او میجر جنرل کمال اظفر نے رکن کمیٹی سے معافی مانگی اور کہا کہ وہ ’کم تنخواہوں پر بھرتی ملازم ہیں اور لمبی ڈیوٹی کرتے ہیں، لوگ اُن سےالجھتے رہتے ہیں تو ایسا کوئی واقعہ ہو سکتا ہے لیکن ہم پھر بھی اس کا نوٹس لے کر دیکھیں گے کہ شکایت نہ ہو۔ ‘

سینیٹر ڈاکٹر وسیم شہزاد نے سوال اُٹھایا کہ ’سوات موٹروے پر ریسٹ ایریاز نہیں ہیں۔‘ اس سوال کے جواب میں ڈی جی ایف ڈبلیو او نے بتایا کہ ’سوات موٹروے پر ٹنل میں تمام سپورٹ سروسز موجود ہیں۔ سوات موٹروےکے ریسٹ ایریاز جنوری کے اختتام تک بن جائیں گے،پیٹرول پمپ بھی آپریشنل ہوں گے۔‘

گوادر میں پُل ٹوٹنے کی وائرل وڈیو پر سوال کے جواب میں میجر جنرل کمال اظفر نے جواب دیا کہ ’جب گوادرپر پل ٹوٹا تھا تو آدھی رات کو ڈی جی آئی ایس پی آر نے میسج کیا کہ اس معاملے پر فوری جواب چاہیے۔ تین چار گھنٹے کے اندر جب چیک کیا تو علم ہوا کہ گوادر پُل والا پروجیکٹ ایف ڈبلیو او کے پاس نہیں ہے۔ ایف ڈبلیو او کا اندرنی آڈٹ بہت سخت ہے فوج میں احتساب کا اپنا نظام ہے جس میں کسی کو معافی نہیں ہے۔‘

اجلاس کے اختتام پر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے ایم الیون سیالکوٹ لاہور موٹروے تک پہنچنے والی ذیلی سڑک کی تعمیر کی سفارش کر دی۔ اس کے علاوہ کمیٹی نے کرتار پور تک جانے والی سڑک تعمیر کرنے کی بھی سفارش کر دی۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان