کچھووں کا عالمی دن: پاکستان میں سبز کچھوا معدوم ہو رہا ہے

ماحولیاتی ماہرین کے مطابق کراچی شہر کے گٹروں کا پانی، صنعتی فضلہ اور پلاسٹک سمندر میں پھینکنے سے سمندری حیات خاص طور پر سبز کچھوے کو شدید خطرات لاحق ہیں۔

پاکستان میں کچھووں کی آٹھ اقسام پائی جاتی ہیں (انڈپینڈنٹ اردو)

جنگلی حیات کے ماہرین کے مطابق پاکستان کے ساحلوں پر آنے والے سمندری کچھوے، خاص طور پر سبز کچھوے کو ان کے انڈے دینے کے جگہ پر بڑھتی ہوئی انسانی مداخلت، سمندر میں گٹروں کا پانی، صنعتوں کا زہریلے کیمکل والا فضلہ اور پلاسٹک پھینکے اور مچھلی کے شکار کے استعمال ہونے والے کانٹے اور غیر قانونی جال کے باعث شدید خطرات لاحق ہیں۔

ہر سال کی طرح آج 23 مئی کو کچھووں کے عالمی دن کے طور اس لیے منایا جا رہا ہے۔ عالمی سطح پر اس دن کے منانے کا مقصد ہے کہ فطرت کے ان شاندار خدمت گاروں کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے۔

محکمہ جنگلی حیات سندھ کے صوبائی کنزرویٹر جاوید احمد مہر کے مطابق اگر سمندری کچھووں کو لاحق خطرات پر قابو نہ پایا گیا تو ’پاکستان کے ساحلوں پر سمندری کچھوے آنا مکمل طور بند کردیں گے۔‘

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے جاوید احمد مہر نے کہا: ’آٹھ کلومیٹر پر پھیلا کراچی کے ہاکس بے اور سینڈز پٹ ساحل کا علاقہ دنیا کے ان چند مقامات میں شمار کیا جاتا ہے جسے ہرے سمندری کچھوے اپنی افزائش نسل کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ 

’مگر ان ساحلوں پر بنائی گئی تفریحی ہٹس، اور انسانی مداخلت کے باعث سبز کچھوے کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ ان جگہوں پر تفریح کے لیے آنے والے لوگ کھانے پینے کی اشیا پھینکتے ہیں، جس کے باعث کتے، چیل، کوے اور دیگر شکاری جانور اور پرندے سبز کچھوے کے بچوں کے لیے بڑا خطرہ بنتے جا رہے ہیں۔‘

 

جاوید احمد مہر کے مطابق کراچی شہر کے گٹروں کا پانی، صنعتی فضلہ اور پلاسٹک سمندر میں پھینکنے سے سمندری حیات خاص طور پر سبز کچھوے کو شدید خطرات لاحق ہیں۔

جاوید احمد مہر کے مطابق: ’کئی تاریخی کتابوں میں یہ حوالہ ملتا ہے کہ کئی دہائیاں قبل جب صوفیوں کے لیے اہم مقام بلوچستان میں واقع لاہوت لا مکاں کی سیر کے بعد لاہوتی ساحل کے ساتھ سفر کرتے کراچی میں واقع بزرگ عبداللہ شاہ غازی کے مزار کے سیر کرنے آتے تھے۔

’اس وقت انہیں مزار کے عقب میں کچھووں کے کھول ملتے تھے جنہیں وہ اپنے کشکول کے لیے استعمال کرتے تھے۔ جس کا مطلب ہے کہ اس وقت کچھوے کلفٹن میں واقع عبداللہ شاہ غازی کے مزار تک آتے تھے۔ مگر اب کچھوے صرف ہاکس بے اور سینڈز پٹ تک ہی محدود ہو گئے ہیں۔ 

’اگر ان تمام خطرات پر قابو نہ پایا گیا۔ تو سبز کچھوے ہاکس بے اور سینڈز پٹ کے ساحلوں پر بھی چند سالوں میں آنا مکمل طور پر بند ہو جائیں گے۔‘ 

اس کے علاوہ مچھلی کے ساتھ کچھووں کو پکڑنا اور مچھلی کے شکار کے لیے استعمال ہونے والا کانٹا بھی کچھووں کو شدید نقصان پہنچاتا ہے۔

سمندری کچھووں کی حفاظت کا سرکاری مرکز

ہاکس بے اور سینڈز پٹ کے ساحلوں پر ویسے تو ہرے سمندری کچھوے انڈے دینے پورا سال ہی آتے رہتے ہیں، مگر جون سے دسمبر تک جب سمندر چڑھا ہوا ہو تو یہ ان کے انڈوں کا سیزن سمجھا جاتا ہے۔

مگر ان ساحلوں پر سیاحوں کی جاب سے پھینکے گئے کھانے پینے کی اشیا پھینکنے کے باعث یہاں موجود شکاری جانور ہرے کچھوے کے انڈوں والے گڑھوں کو کھود کر انڈے پی جاتے ہیں۔

محکمہ جنگلی حیات سندھ نے ہرے کچھوے سمیت دیگر سمندری کچھووں کے انڈوں کی حفاظت کے لیے مرین ٹرٹل کنزرویشن سینٹر یا مرکز برائے تحفظ سمندری کچھوے قائم کیا ہے۔ 

یہ مرکز 1970 کی دہائی سے سمندری کچھووں کے انڈے دینے کے موسم میں ان کی حاظت کرتا ہے۔ اس مرکز پر انڈوں کی سیزن کے دوران جب مادہ کچھوا ریت میں گڑھا کھود کر انڈے دے جاتی ہے تو محکمہ جنگلی حیات سندھ کا عملہ اس گڑھے سے انڈے نکال کر ایک مخصوص انکلوژر (جنگلے) میں بنے گڑھوں میں انڈے رکھ کر ان کے اوپر لوہے کے پنجرے لگا دیتے ہیں تاکہ انڈوں کو شکاریوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔

انڈوں سے بچے نکلنے کے بعد عملہ انہیں اٹھا کر سمندر میں باحفاظت چھوڑ دیتا ہے۔

اس مرکز کے انچارچ اشفاق علی میمن نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 1970 کی دہائی سے اب تک سبز کچھوے کے تقریباً نو لاکھ بچے باحفاظت سمندر میں چھوڑے گئے ہیں۔

کچھووں کے عالمی دن پر محکمہ جنگلی حیات سندھ کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق اس سال سبز کچھوے کے 28 ہزار انڈوں کو گڑھوں سے نکال کر حفاظتی جنگلے میں رکھا گیا، جن میں نکلنے والے تقریباً 15 ہزار بچوں کو سمندر میں چھوڑا گیا۔ اس کے علاوہ انڈے دینے کے لیے آنے والے 43 سبز کچھووں کو سیٹلائیٹ ٹیگز بھی لگائے گئے۔ جاوید احمد مہر کے مطابق پاکستان میں لگائے جانے والے ٹیگ والے کچھوے جنوبی افریقہ، ایران اور عمان میں بھی نظر آئے۔

ماہرین جنگلی حیات کے مطابق ہرے کچھوے کی مادہ دنیا میں جس مقام پر پیدا ہوتی ہے، انڈے دینے کے لیے اسی مقام کا انتخاب کرتی ہے۔ 

دنیا میں تین مختلف مسکنوں میں رہنے والے کچھوے پائے جاتے ہیں۔ صاف پانی کے کچھوے، خشکی پر رہنے والے کچھوے اور سمندری کچھوے۔ پاکستان میں دو اقسام کے سمندری کچھوے سمندر سے نکل کر ساحلوں پر آتے ہیں۔ جن میں اکثریت سبز کچھوے کی ہے۔ جبکہ انتہائی کم تعداد میں زیتونی کچھوے بھی نظر آتے ہیں۔

ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کی جانب سے چند مقامات پر لاگر ہیڈ، ہاکس بل اور لیدر بیک کچھووں کی پاکستان کے ساحلوں پر چند مقامات پر پائے جانے کی تصدیق کی ہے۔

پاکستان میں پائے جانے والے خشکی اور میٹھے پانی کے کچھوے

محکمہ جنگلی حیات سندھ کے ریکارڈ کے مطابق دنیا میں صاف پانیوں اور خشکی پر رہنے والے کچھووں کی 443 اقسام پائی جاتی ہے، جن میں سے پاکستان میں آٹھ اقسام موجود ہیں۔ پاکستان میں خشکی اور میٹھے پانی کے کچھووں کی آٹھ اقسام پائی جاتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

خشکی پر رہنے والے کچھوے میدانوں، پہاڑوں میں پائے جاتے ہیں۔ جب کہ میٹھے پانی کے کچھوے دریاؤں، نہروں، جھیلوں، اور یہاں تک کہ چاول کے کھیتوں میں بھی پائے جاتے ہیں۔ 

ان میں چار نرم خول اور چار سخت خول والی اقسام ہیں۔ صوبہ سندھ میں ملک میں پائے جانے والی تمام آٹھ اقسام کے میٹھے پانی اور خشکی پر رہنے والے کچھوے موجود ہیں۔

وائلد لائف سکھر ڈویژن کے ڈپٹی کنزرویٹر عدنان حامد خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’میٹھے پانی کے کچھوے ٹھندی پانیوں کی نسبت گرم پانیوں میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ دریائے سندھ میں پائے جانے والے تمام کچھوے چشما بیراج سے نیچے کے علاقوں میں ملتے ہیں۔ جہاں پانی گرم رہتا ہے۔‘

میٹھے پانی کے کچھووں خاص طور پر دریائے سندھ کے کچھووں کو پاکستان کے بیرون ممالک کچھوے کے کھول کی غیر قانونی تجارت کے باعث خطرات لاحق ہیں۔

’چین، ہانگ کانگ، ویتنام اور دیگر کئی ممالک میں میٹھے پانی کے کچھوے کے کھول کو ابال کر سوپ کے طور پر پینے کے رجحان کے باعث کچھوے کی مانگ بہت زیادہ ہے۔ اس لیے ان کی غیر قانونی تجارت کی جاتی ہے۔ 

خشکی پر رہنے والے کچھوے پکڑنا آسان ہے، جب کہ دریا میں موجود کچھووں کو پکڑنا مشکل سمجھا جاتا ہے۔

دریائی کچھوے جب دھوپ سینکنے یا انڈے دینے کے دریا سے باہر آتے ہیں تو انہیں پکڑ لیا جاتا ہے۔ جاوید احمد مہر کے مطابق خشکی پر رہنے والے، میٹھے پانی کے کچھوے اور سمندری کچھوے انڈے پانی سے باہر بلکل خشک جگہ پر دیتے ہیں، جب انڈوں سے بچے نکلتے ہیں تو خود ہی پانی کی جانب روانہ ہو جاتے ہیں۔

ماضی میں مناسب قانون نہ ہونے کے باعث خشکی اور میٹھے پانی کے کچھوے پکڑنے والے مجرموں کو چند ہزار روپے کا جرمانہ کر کے چھوڑ دیا جاتا تھا۔

حکومت سندھ نے گذشتہ سال ’سندھ ٹرٹل کنزریشن رولز 2022‘ نفاذ کر دیا ہے، جس کے تحت کچھووں کے تمام تمام اقسام کو تحفظ یافتہ قرار دیا گیا ہے اور تمام اقسام کے کچھووں کو پکڑنا اور ان کی سمگلنگ پر بھاری جرمانے کے ساتھ قید کے سزا مقرر کی گئی ہے۔ 

اس کے علاوہ عام دنوں میں دریا سے نکلنے والے کچھوے گاڑیوں کے نیچے کچلے جاتے ہیں۔ جنوری میں ہر سال جب بیراجوں اور نہروں کی صفائی کے لیے سالانہ وارا بندی کر کے بیراجوں سے نکلنے والی نہروں کو بند کر دیا جاتا ہے۔ اس وقت بڑی تعداد میں کچھوے باہر نکل آتے ہیں۔

عدنان حامد خان کے مطابق سالانہ وارا بندی کے دوران سکھر بیراج پر باہر نکلنے والے کچھووں کو جنگل کی ٹیمیں واپس دریا میں بھیجتی ہے۔

فطری ماحول میں کچھووں کی اہمیت

کچھووں کی موجودگی سمندر، دریاؤں، نہروں اور جھیلوں کے پانی کی صحت کی نشانی سمجھے جاتے ہیں۔ کچھووں کو فطرت کی فوڈ چین کا اہم رکن سمجھا جاتا ہے۔ یہ آبی ایکو سسٹم کی مرمت کا کام سرانجام دیتے ہیں۔

جاوید احمد مہر کے مطابق میٹھے پانی کے کچھوے پانی میں موجود مردار جانوروں سمیت کوڑے کو کھا کر پانی کو صاف رکھتے ہیں، جب کہ سمندری کچھوے سمندر میں کئی اقسام کی مچھلیوں کے افزائش نسل کے لیے اہم سمجھے جانے والی مونگے کی چٹانوں کی صحت کے ضامن ہیں۔ 

جاوید احمد مہر کے مطابق: ’سمندری کچھوے مونگے کی چٹانوں کو چاٹتے ہیں، جس سے ان چٹانوں میں جمی کائی اور دیگر گھاس ختم ہو جاتی ہے اور مونگے کی چٹانوں کو ایک نئی زندگی ملتی ہے۔‘  

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات