پاکستان میں صرف پانچ فیصد کچھوے بچے ہیں

کچھوؤں کی آٹھ اقسام معدوم ہونے کے دہانے پر ہیں اور نرم اور سخت شیل والے کچھوے تو تقریباً ناپید ہو گئے ہیں۔

پاکستان میں محکمہ جنگلی حیات کا ایک اہلکار 9 نومبر 2015 کو مقامی مارکیٹ میں فروخت کرنے کی کوشش کرنے والے سمگلرز سے قبضے میں لیے جانے والے تازہ پانی کے 40 کچھوؤں کو  ذرائع ابلاغ کے سامنے پیش کر رہا ہے (تصویر: اے ایف پی فائل)

ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہارڈ شیل کچھوؤں کی غیر قانونی تجارت میں تیزی دیکھی گئی ہے جس کے نتیجے میں کچھوؤں کی معدوم ہوتی ہوئی نسل کو خطرہ لاحق ہے اور صرف پانچ فیصد ہارڈ شیل کچھوے پاکستان میں رہ گئے ہیں۔

جیسے کہ ہوتا چلا آیا ہے کہ قانون تو موجود ہے لیکن عمل درآمد نہیں، غیر قانونی تجارت میں پکڑے جائیں تو جرمانہ بہت کم ہے جبکہ تجارت میں منافع بہت زیادہ ہے۔

کچھوؤں کی غیر قانونی تجارت تقریباً سنہ 2000 میں شروع ہوئی اور قوانین کی عدم موجودگی اور جو قوانین تھے ان پر عمل درآمد نہ ہونے کے برابر اور سزائیں نہایت کم ہونے کے باعث کچھوؤں کی آٹھ اقسام معدوم ہونے کے دہانے پر ہیں اور نرم اور سخت شیل والے کچھوے تو تقریباً ناپید ہو گئے ہیں۔

پاکستان میں تازہ پانی کے کچھوے چاروں صوبوں کے دریاؤں، کینالوں، جھیلوں، اور یہاں تک کہ چاول کے کھیتوں میں پائے جاتے ہیں۔ لیکن مشرقی ایشیائی ممالک جیسے کہ چین، ہانگ کانگ، ویتنام میں ان کے گوشت کی مانگ بہت زیادہ ہونے کے باعث ان کی غیر قانونی تجارت کی جاتی ہے۔

صرف یہی نہیں بلکہ ان کچھووں کی امریکہ اور برطانیہ میں مانگ کافی بڑھ گئی ہے جہاں لوگ ان کو پالتے ہیں۔

اگر ایک کچھوہ دو ہزار ڈالر کا بکتا ہے تو اس غیر قانونی تجارت میں ملوث افراد کو کیا نقصان ہے کہ اگر یہ پکڑے بھی جائیں اور چند ہزار روپے جرمانہ ہو۔

اسی غیر قانونی تجارت کے باعث انٹر نیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر (آئی یو سی این) کے مطابق تازہ پانی کے کچھوؤں کی آٹھ اقسام میں سے پانچ یا تو معدوم ہو چکی ہیں یا ان کو خطرہ ہے۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف کی ایک اور رپورٹ کے مطابق کچھوؤں کی غیر قانونی تجارت کا آغاز سنہ 2000 میں دریائے سندھ میں مچھلیوں کی تعداد میں کمی کے باعث ہوا۔

خیبر پختونخوا میں اس کا آغاز 2006 میں ہوا جبکہ پنجاب میں 2002 میں ہوا۔

غیر قانونی تجارت کیسے کی جاتی ہے؟

کچھوؤں کی تجارت کرنے والے بڑے ڈیلرز چھوٹے چھوٹے علاقوں میں مقامی ڈیلرز سے رابطہ کرتے ہیں اور چھوٹے قصبوں سے کچھوؤں کو بڑے شہروں میں بھیجا جاتا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خیبر پختونخوا میں تازہ پانی کے کچھوؤں کی غیر قانونی تجارت کے آغاز کا سہرا لاہور کے بڑے ڈیلرز کو جاتا ہے۔

لاہور میں کچھوؤں کی آمد کے بعد ان کو کراچی روانہ کیا جاتا ہے جہاں سے ان کچھوؤں کو مختلف ممالک بھیجا جاتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس غیر قانونی تجارت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سنہ 2005 میں کراچی کی بندرگاہ پر تین ہزار 650 کلو گرام کے فریز کیے ہوئے کچھوے پکڑے گئے جن کو ویتنام بھیجنے کی کوشش کی جا رہی تھی۔

سنہ 2007 میں کراچی کے ہوائی اڈے سے سکھائے ہوئے کچھوؤں کے حصے ضبط کیے گئے جو سات سو کلو گرام وزن کے تھے۔

یہ حصے چین بھیجے جا رہے تھے۔ اسی طرح 2007 ہی میں پشاور میں محکمہ جنگلی حیات نے 300 کلوگرام سکھائے ہوئے کچھوؤں کے حصے ضبط کیے۔

کچھوے پکڑنے کا کوئی خاص سیزن تو طے نہیں لیکن موسم سرماں اور بہار میں پانی کم ہونے کے باعث ان کا شکار آسان ہوتا ہے۔

یہ یا تو نیزے یا ہوک لائن اور یا پھر جال سے پکڑے جاتے ہیں۔ ان پکڑے گئے کچھوؤں کے گوشت کو اسی وقت تیار کیا جاتا ہے یا پھر قریب ہی کسی مقام پر تیار کیا جاتا ہے۔

جو حصے چاہیے ہوتے ہیں ان کو کاٹ کر پانی میں گرم کرلیا جاتا ہے تاکہ اس کی بدبو نہ پھیل سکے۔

کچھوؤں کے گوشت کو فریز کر لیا جاتا ہے جبکہ زندہ کچھوؤں کو خاص بنائے گئے پانی کے زیر زمین ٹینکوں میں رکھا جاتا ہے۔

کچھوؤں کی غیر قانونی تجارت کو روکنے کے لیے ملک کے قوانین کو مزید سخت کرنے اور ان پر عمل درآمد کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ملک کی نوجوان نسل کو آگاہی دی جائے۔

میں یہ بات اس لیے کر رہا ہوں کہ میرے بیٹے کے دوست نے کل ہی اسلام آبا میں ایک چھوٹا کچھوا خریدا ہے۔ جب میں نے اس سے پوچھا کہ کیا اس کو علم ہے کہ اس کو بیچنا غیر قانونی ہے تو پہلے وہ اس بات کو مذاق سمجھا اور پھر پریشان ہو گیا کہ وہ کیا کرے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ